URDUSKY || NETWORK

دنیامیں انقلاب کی لہر

127
دنیامیں انقلاب کی لہر ……!!!
خبردارحکمرانوں !پاکستان میں بھی انقلاب کی فصل تیارہے …..
آج دنیا کے بالخصوص اُن مسلم ممالک میں جو عرصہ دراز سے امریکاکے زیر اثر رہے ہیںاُن میں اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے امریکانے ایسے حالات پیداکردیئے ہیں کہ آج اُن میں انقلابی طوفان نے ایک ایسی تباہی مچادی ہے کہ اَب اِس سے اُن ممالک کا سنبھالنا مشکل ہوگیاہے یوں اُن ممالک میںبرپاہونے والی انقلابی و طوفانی صُورتِحال سے اِن مسلم ممالک ( بشمول پاکستان)کے حکمرانوں کو بھی عبرت لینی چاہئے جو اَبھی تک اپنی آنکھیں بندکئے امریکا کو اپناہمدرد اور دوست سمجھے ہوئے ہیں اور اِس کے کاندھوں پر سر رکھ کر سونا اپنے لئے باعثِ راحت و اطمینان سمجھتے ہیں آج اِن کے اِسی دوست نے دنیا کے بیشتر اُن مسلم ممالک کے حکمرانوں کے خلاف جو اِن ہی کی طرح امریکا کو اپنا آقاسمجھتے تھے آج اِس ہی امریکا نے اُن ہی کے خلا ف اِن کی عوام کو انقلاب کے نام پر اُکساکر باہر سڑکوں پر نکال دیا ہے توایک طرف دنیا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے کہ دنیامیں انقلاب کیسے آتا ہے…؟ تو دوسری طرف وہ یہ بھی سوچنے پر مجبورہے کہ دس سے بارہ برسوں کے دوران جن ممالک میںانقلاب آئے ہیں یا جن میں آنے کی بازگشت سُنائی دے رہی ہے اُن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے جہاںانقلاب برپاہوئے یا ہوں گے….مصر میں موجودہ پیداہونے والی انقلابی صُورتِ حال کے حوالے سے ایک بڑے امریکی اخبار نے بدنامِ زمانہ وکی لیکس کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ مصر میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کو امریکا کی خفیہ حمایت حاصل ہے کیونکہ تیس سال سے زائد عرصے تک مصر پر امریکی آشیرواد کے ساتھ حکمرانی کرنے والے اپنے پِٹھو مصری صدر حُسنی مبارک سے امریکا کو جو کام لینا تھا وہ لے چکا ہے اَب اِس کی تبدیلی ضروری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے امریکا خفیہ طور پر مصری مظاہرین کی ایک طرف مدد کررہاہے تو دوسری طرف اپنے پِٹھُو مصری صدر حُسنی مبارک کو یہ تھپکی بھی دے رہا ہے کہ یہ اِس کے ساتھ ہے اور جب تک امریکااِس کے ساتھ ہے توپھر کوئی اِس کا کچھ نہیں بگاڑسکتاہے جبکہ حقیقت اِس کے بالکل برعکس ہے وہ یہ کہ امریکا اَب خود بھی حُسنی مبارک کومصر میں برداشت نہیں کرناچاہتاہے ۔
بہرحال میں یہا ں اپنے قارئین کو یہ بتاتاچلوں کہ انقلاب کیا ہے….؟اور اِس کے لغوی معنی کیا ہیں….؟ تو جان لیجئے کہ انقلاب کے لُغوی معنی تبدیلی ، اور ایک ایسی روررس تبدیلی کے ہیں جو تاریخی ، روائتی ، سماجی ، سیاسی اور نظریاتی پس منظر کو یکسربدل ڈالے اور معاشرے میں اُن افراد کو جن کا کسی بھی وجہ سے استحصال ہواہے اِن کی زندگی کو نئے قالب میں ڈھالنے کا موجب ہو وہ انقلاب کہلاتاہے سمجھنے کے لئے یہ بھی جان لیجئے کہ کہاجاتاہے کہ انقلاب یکدم سے رونما نہیں ہوجاتا بلکہ انسانی معاشرے میں کافی عرصہ تک نظرنہ آنے والی آہستہ آہستہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن سماج کی ساخت میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آتی اور پھر یکایک یہ تسلسل ٹوٹتاہے اور انقلاب آجاتاہے پُرانے قسم کے سماج کی جگہہ نئے قسم کا سماج آجاتاہے یعنی یہ کہ جب مقصد اور کسی بھی مثبت و تعمیری عمل کا اشراک ہوتاہے تو ایک نئی دنیا تخلیق ہوناشروع ہوجاتی ہے اوریہی انقلاب ہوتاہے اورجو لوگوںکی زندگی کا کسی نئے اور درست سمت میں تعین کردیتاہے اِسی طرح اِس حققیت سے شائد دنیا کا کوئی بھی شخص انکار نہ کرسکے کہ ہر انقلاب شروع میں صرف کسی ایک شخص کے دماغ کی سوچ ہوتاہے جس کی باتوں کا بعض مرتبہ لوگ مذاق بھی اُڑاتے ہیں مگر جوں جوں وقت گزرتاجاتاہے اور لوگ اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں اپنا استحصال ہوتامحسوس کرتے ہیں تو پھر یہی لوگ اُس شخص کی فکرکے گرویدہ ہوجاتے ہیں جس کا یہ پہلے مذاق اُڑیاکرتے تھے اور پھر جب وہی سوچ اِن کے ذہن میں پیداہوجاتی ہے توملکوں میں انقلاب کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
ارسطو نے کہاہے کہ انقلاب چھوٹی چھوٹی باتوں سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی انقلاب پیداکرنے کی باعث بنتی ہے اور آج دنیا کے بہت سے ممالک جن میں مصر، تیونس اور اردن شامل ہیںاِن میںجو انقلابی طوفان آرہے ہیں یقینا اِن طوفانوں کو اُن چھوٹی چھوٹی لہروںنے ہی مل کر طاقتور بنایا ہے جس کی وجہ سے اِن ممالک میں انقلابی طوفان نے جابر و فاسق حکمرانوں کی چولیں ڈھیلی کر کے رکھ دی ہیں مصر میں امریکی پٹھُوصدر حُسنی مبارک کے خلاف مظاہرے چھٹے روز بھی جاری ہیں خبر یہ ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصر میں انقلاب کے لئے نکلنے والے مصریوں کے پُر تشدد مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے جہاں لاکھوں مصری سڑکوں پر نکل کر اپنے امریکی پٹھُو صدر حُسنی مبارک کے خلاف مظاہرے میں اینٹ سے اینٹ بجاڈالنے پر تلے ہوئے ہیں اَب تو حد یہ ہوگئی ہے کہ مصرکے امریکی پٹھُو صدر حُسنی مبارک کے جابرانہ رویوں کے خلاف نہ صرف مصر کے عوام ہی سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں بلکہ اِس کے خلاف مصر کی فوج ، پولیس اور جج بھی اِن پُر تشدد مظاہروں میں شامل ہوگئے ہیںجو پہلے کسی وجہ سے خاموش تھے مگر اِنہیں جیسے ہی
یہ موقع ہاتھ لگاتو وہ بھی عوام کے ساتھ ہوگئے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ امریکی اشاروں پر چلنے والے مصری صدر حُسنی مبارک کو برطرف کرکے اِسے مصری قانون کے خلاف سخت ترین سزادی جائے جس نے مصری عوام کی زندگیاں تنگ کررکھی ہیں مصر کی جومودہ صُورتحال کے حوالے سے امریکا نے حُسنی مبارک کی جگہہ اپنا کوئی نیامٹھوبیٹاصدر لانے کے لئے مصر میں آزادانہ الیکشن کا مطالبہ کردیاہے اُدھر اِس امریکی مطالبے کے خلاف بھی کرفیو کے باوجود ہزاروں مظاہرین التحریہ اسکوائر پر جمع ہوگئے ”نومبارک نو“ اور ”گومبارک گو“ کے فلگ شگاف نعرے لگائے اِن مظاہرین میں سرکاری ملازمین اور جج کا بھی بڑی تعداد میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اَب کسی بھی سطح پرامریکی پِٹھُو مصری صدر حُسنی مبارک کو عوامی حمایت اور تائید حاصل نہیں رہی ہے مگر اِس کے باوجود بھی کہاجاتاہے کہ حُسنی مبارک کو کچھ خفیہ افراد کی حمایت اَب بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے اِس نے عوام کے آگے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اُلٹا فوج کو اپنے خلاف تحریکیں چلانے اور مظاہرے کرنے والوں پر گولی چلانے کا اختیار دے دیا ہے جس کے بعد مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپوں میں اَب تک 60سے زائد افراد کی ہلاکتیںعمل میں آچکی ہیں جس کے بعد اِن ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 160تک پہنچ چکی ہے اور لگ بھگ ساڑھے چار ہزار کے قریب افراد زخمی ہوگئے ہیں ۔
اُدھر بی بی سی نے اپنے یہاںایک رپورٹ میں دنیا بھر میں مصری عورتوں کی خوبصورتی کے حوالے سے مشہور ملک مصر کی موجودہ صُورتِ حال کے حوالے سے وہاں کے شہریوںکی عادات سے متعلق جو تبصرہ کیا ہے وہ ہر لحاظ سے درست کہلانے کے قابل ہے اِس نے مصریوں سے متعلق اپنے تبصرے میں کہاہے کہ مصری عوام طبعاََ صابروشاکراور اپنی مستیوں میں مست مولامالنگ لوگ ہیں اِن کی سرشت میں جلد بازی نہیں ہے یہ ٹھنڈے دل و دماغ اور اچھی فہم وفراست والے سلجھے ہوئے لوگ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مصری 4000برس سے فراعین کے ساتھ خاموشی سے گزارہ کررہے ہیں اِس حوالے سے اِس نے مصر کے موجودہ امریکی پِٹھُو صدرحُسنی مبارک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اِسی کو ہی دیکھ لیں 1975سے آج تک اِ س مصری صدر کی تصویر دُھندلی نہیں ہوئی ہے۔
مصر میں اپنے پِٹھُو صدر حُسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں عوامی غیض وغضب کے حوالے سے امریکا نے فوراََ اپنا پینترابدلا اور مصری صدر حُسنی مبارک اور فوج پر امریکی لومڑی جیسی آنکھوں والی انتہائی تیزو طرار وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے زور دیاہے کہ اَب بہت ہوچکی ہے جو امریکا کی برداشت سے باہر ہے مصری صدر حُسنی مبارک اور فوج منظم انداز سے اقتدار جمہوری قوتوں کو منتقل کردے۔اِس کے بعد کیا اَب یہ نہیں کہاجاسکتاکہ امریکا کبھی بھی بُرے وقت میں کسی کا ساتھ نہیں دیتاہے یہ اپنے مفادات کے حصول تک تو دوستی رکھتاہے مگر جب بھی کسی پر بُراوقت آتاہے تو منہ پھیرلیتاہے اِس لئے اُن مسلم ممالک کے حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کُھول لینی چاہیئں جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ اِن کے کسی بھی بُرے وقت میں امریکا اِن کا ساتھ دے گا ۔
آج مصر کی موجودہ بگڑتی ہوئی صُورتِ حال کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش امریکی بغل بچہ اسرائیل کو ہے جس کی ہر مشکل گھڑی میںاِسی امریکی پِٹھُو مصر صدرحُسنی مبارک نے مددکی تھی اور اسرائیل کے ہراُس منصوبے کو پوری قوت سے کامیاب بنایاتھا جو فلسطینیوں کے خلاف تھا جس کی ایک تازہ ترین مثال یہ دی جارہی ہے کہ یہی وہ مصری صدر حُسنی مبارک ہے جس نے ا پنی عوام کی لاکھ مخالفت مول لے کر بھی امریکی اشاروں پر مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو مو ¿ثر بنایاتھا آج یہی وجہ ہے کہ مصر میں اٹھتے انقلابی طوفان سے خوفزدہ اسرائیل اَب اِس فکر میں دُبلاہورہاہے کہ اگر مصر میںعوامی تحریک اِس کے جگری دوست مصری صدر حُسنی مبارک کو ہٹانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کا کیا بنے گا….اور آئندہ کون ہوگا جو اِس کے فلسطینیوںکے خلاف بنائے جانے والے منصوبوں کی حمایت کرے گا…؟؟یہاں میرے قارئین یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ تیونس، مصر اور اُردن یہ وہ ممالک ہیںجن کے ایجنڈے میں یہ ہمیشہ شامل رہا کہ یہ فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلی مفادات کو ترجیح دیں گے اور اِن ممالک نے ہمیشہ ایساہی کیا۔
اُدھر مصر میں حکومت مخالف مظاہروں سے پیداہونے والی صُورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک اور قریب ترین مسلم ملک پاکستان کے حکمرانوں، اپوزیشن رہنماو ¿ں سمیت سیاستدانوںاور مذہبی و سماجی تنظیموں کے کرتادھرتاو ¿ں کوبھی یہ عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تیونس اور مصر سمیت کئی ملکوںمیںحکومتوں کے خلاف عوامی احتجاجوں اور مظاہروںکی جو لہر چل پڑی ہے خدشہ ہے کہ مظاہروں کی یہ لہر پاکستان بھی پہنچ سکتی ہے جوبائیڈن کے اِس خدشے کو ہمارے حکمران کس معنی اور زاویئے میں لیتے ہیں یہ اِن کی صوابدید پر ہے کہ یہ آیا جوبائیڈن کے اِس بیان کو کتناسمجھ پائے ہیں جبکہ میراخیال تو یہ ہے ہمارے حکمران جوبائیڈن کے اِس عندئے کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں میرااپنے وزیر اعظم سیدیوسف رضاگیلانی سے یہ کہناہے آپ امریکی نائب صدر کے اِس عندیئے کو اچھی طرح سے سمجھیں کہ وہ کیاکہہ گیاہے اور آپ نے شائد اِس کے اِس عندیئے کو سمجھے بغیر ہی یہ کہہ دیا ہے کہ”پاکستان میں جمہوری حکومت اور آزاد عدلیہ ومیڈیا ہیں مصر ،تیونس سے پاکستان کا موازنہ نہ کیا جائے “ جبکہ میراخیال تو ہے کہ آپ کے کہنے کے مطابق پاکستان میںاتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی امریکا نہ تو پاکستان میں رائج کسی جمہوریت اور آزاد میڈیاسے ہی مطمین ہے اور نہ ہی پاکستانی حکمرانوں کی کسی ایسی جمہوریت سے جس کے ثمرات اُوپری سطح سے نچلے طبقے تک نہیں پہنچ پائے ہیں تو وزیراعظم یہ بات بھول جائیں کہ پاکستان میں انقلاب دستک نہیں دے رہاہے پاکستان میںبھی انقلاب آئے گا اور ضرور آئے گا اور امریکا ہی عوام کے ساتھ مل کر لائے گاکیونکہ حکمرانوں کے رویوں اور ملک میں بڑھتی ہوئی اقرباپروی ، کرپشن، لوٹ مار، بےروزگاری، دہشت گردی، قتل وغارت گری اور مہنگائی کے عفریت نے اِس ملک کے غریبوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ وہ ملک میںحکمرانوں کے ہاتھوں اپنے ہونے والے استحصال کے خلاف انقلاب کے لئے نکلنے کو تیار بیٹھے ہیں اور اگر حکومت نے یکم فروری 2011یا اِس کے بعد جیساکہ خبریں آرہی ہیں پیڑولیم کی مصنوعات کی قیمتوںمیں بے لگام اضافہ کیا اور تین پاکستانیوں کے قتل کے مجرم امریکی عیسائی دہشت گردریمنڈ کو امریکی دباو ¿ میںآکر چھوڑ دیا تو پھر کوئی مائی کا لعل ملک میں آنے والے انقلاب کونہیں روک سکے گا کیونکہ اَب پاکستان میں انقلاب کی فصل تیار ہے بس اِسے کٹنے کی دیر ہے۔