URDUSKY || NETWORK

جب جرم کیلئے لوگ اجازت طلب کرنے لگیں

83

بائیس سالہ ریاض ملتان کا رہنے والا ہے جو اِس امید پر اپنے گھر سے ہزاروں میل دور کراچی آیا کہ یہاں محنت مزدوری کرکے اپنے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کا انتظام بہتر کرسکے گا،لیکن اُس کے یہ خواب خواب ہی رہ گئے،کراچی جیسے شہر میں چھ ہزار روپئے ماہانہ کی نوکری میں کرائے پر رہنا اور پیٹ کی آگ بجھانا بہت مشکل کام ہے،بھلا بوڑھے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی کفالت کیسے ہوسکتی ہے،دن رات محنت مشقت کرنے کے بعد بالآخر ریاض کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اُس کی تمام تر کوشش کے باوجود اُس کے اور اہل خانہ کے حالات میں کوئی تبدیلی آتی دکھائی نہیں دیتی ۔ahmad-tarazi
یہی حال 55سالہ بزرگ مزدور زین شاہ ہے،جو سائٹ کی ایک دوا ساز کمپنی میں کام کرتے ہیں اور سلطان آباد میں رہتے ہیں،بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اُن کی زندگی عذاب بنادی ہے،بچے اپنی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر مختلف فیکٹریوں میں کام کررہے ہیں،لیکن اِس کے باوجود گھر کے ا خراجات پورے ہونے کا نام نہیں لیتے ۔
کرائے کے مکان میں رہنے والے سات بچوں کے باپ لعل زادہ کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے سائٹ میں واقع ایک میڈیسن کمپنی میں 9ہزار ماہوار پر کام کررہا ہے، گذشتہ دس برسوں کے دوران اُس کی تنخواہ میں صرف 4ہزار روپئے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اِس کے مقابلے میں اخراجات میں کئی گنا بڑھ چکے ہیں،لعل زادہ کے نزدیک اِن حالات میں بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کے اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا ہے ۔
نوجوان نذر کا تعلق مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع دیر سے ہے،ابھی وہ میڑک کا طالبعلم تھا کہ عسکریت پسندوں نے اُس کے والد کو زخمی کردیا،جس سے وہ محنت مزدوری کے قابل نہ رہے،تعلیم ادھوری چھوڑ کر ڈیڑھ سال قبل نذر سات افراد پر مشتمل کنبے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائے کراچی آگیا،لیکن آج تک اُسے کوئی مستقل روزگار نہیں مل سکا، بلکہ اکثر اوقات مزدوری نہ ملنے کی وجہ سے اُسے بھوکا ہی سونا پڑتا ہے،ایسی صورت میں وہ اپنے گھروالوں کیلئے کیا بھیجے ۔
قارئین محترم یہ اُن دوہزار لوگوں میں سے چند لوگوں کی زندگی کی مختصراً کہانیاں ہیں،جو حالات سے تنگ آکر گذشتہ دنوں ایک معروف دینی ردسگاہ میں علمائے دین اور مفتیان کرام کے پاس یہ درخواست لے کر پہنچے کہ انہیں شریعت مطہرہ کی روشنی میں حرام اور ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ اب اپنے اہل خانہ کو مزید صعوبتیں برداشت کرتا نہیں دیکھنا چاہتے،اِن لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائیں یا پھر بھوک سے موت اُن کا مقدر ہوگی ۔
یہ ملک کے اُن لاکھوں کروڑوں لوگوں میں شامل وہ چند لوگ ہیں،جو خط غربت سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں،جو اشیاءخودونوش اور روزمرہ استعمال کی دیگر بنیادی اشیاء میں روز بروز اضافے سے تنگ آچکے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو مکان کا کرایہ،بجلی کا بل اور پانی کا بل ادا کرتے ہیں تو کھانے کو کچھ نہیں بچتا،یہ وہ لوگ ہیں جو ڈیوٹی پر آنے جانے کیلئے چار پانچ کلومیٹر پیدل سفر کرکے کرایہ بچاتے ہیں لیکن اِس کے باوجود اِن کے بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی ۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ یا روزانہ اجرت اِس قدر قلیل ہے کہ مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کرنا اِن کے بس سے باہر ہوگیا ہے،یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں فاقے ہورہے اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اہل خانہ اِن کی آنکھوں کے سامنے سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں،اِن سائلین کا کہنا ہے کہ جب اسلام بھوک کی موت مرنے سے بچنے کیلئے سُور کا گوشت کھاکر زندگی بچانے کی اجازت دیتا ہے اور خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے،تو کیا وہ اِس دلیل کو سامنے رکھتے ہوئے چوری،ڈکیتی یا دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ مال حرام سے اپنے اور اہل خانہ کے پیٹ کی آگ بجھاسکتے ہیں ۔
فتویٰ کی درخواست لے کر آنے والے اِن سائلین کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی تنظیموں،نام نہاد اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقے کو اپنے دکھڑے سنا سنا کر تھک چکے ہیں اور اب مجبور ہوکر علماءکرام کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں کہ ایسی صورت میں اسلام انہیں اِس بات کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟اور اگر اِن میں سے کوئی حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسے کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اُس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ایک طرف جہاں اِن سائلین کے سوال نے علمائے کرام اور مفتیان دین کو مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے وہیں عوام کا علماء سے جرائم کیلئے اجازت کا طلب کرنا حکومت وقت کیلئے کسی انتباہ اور طمانچے سے کم نہیں،بنیادی طور پر عوامی حقوق کی حفاظت اور انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے جس میں ہماری حکومت قطعی طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے ۔
ایک طرف غربت ،بھوک اور بیروزگاری کے باعث لوگوں کا زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی سرپرستی میں سرکاری وسائل کو بے دریغ لوٹا جارہا ہے، حکمرانوں کی عیاشیاں اور شاہ خرچیاں ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آرہی،ہر روز دو ارب روپے کے نوٹ چھاپے جارہے ہیں جس سے افرا ط زر میں اضافہ اور مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے ۔
اِن حالات میں اگر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے حلال روزی کمانے والے افراد جرم کی اجازت طلب کرنے لگیں تو یقینا یہ حکمرانوں کیلئے باعث شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے،اِس المناک صورتحال کے ذمہ دار ہمارے ارباب اختیار ہیں جو حالات کو اِس نہج پر لے آئے ہیں،اگر اب بھی یہ اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لاتے اور اپنی روش نہیں بدلتے تووہ دن دور نہیں جب جرائم کی آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔
آج مہنگائی کے ہاتھوں مجبور افراد کا علماء سے ناجائز کاموں کی اجازت کا طلب کرنا، ارباب اقتدار،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور فلاحی و رفاعی تنظیموں کیلئے لمحہ فکریہ ہے،ہماری نظر میں جرم کیلئے شرعی اجازت کا طلب کرنا ارباب اقتدار،سیاسی جماعتوں اور طبقہ اشرافیہ سے عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا عکاس اور انہیں متنبہ کررہا ہے کہ ملک کے غریب اور مفلوک الحال طبقے کی بہتری کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں ۔
وگرنہ یہی مزدور مختلف جرائم کا سہارا لے کر اپنے خاندان کی کفالت کو جائز سمجھنے لگیں گے اور پھر اِس آگ میں جلنے سے ملک کا کوئی طبقہ بچ نہیں پائے گا،یاد رکھیں جب معاشرے میں لوگ جرم کرنے کیلئے مذہبی حوالے سے اجازت طلب کرنے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ تباہی و بربادی آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔