URDUSKY || NETWORK

توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کے خلاف عوامی طاقت کا زبردست مظاہرہ

90

عثمان حسن زئی
[email protected]
توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کی حکومتی کوششوں کے خلاف خیبر تا کراچی لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ ناموس رسالت کے معاملے پر ملک کی اکثر دینی و سیاسی جماعتوں نے شاندار اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے ”عوامی طاقت“ کا زبردسUsman hasan Jozviت مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے حرمت رسول کے لیے تن من دھن قربان کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا قاضی عبدالرشید نے کہا کہ ناموس رسالت کے خلاف سازش درحقیقت نظریہ پاکستان کے خلاف بغاوت ہے۔ اہلسنت و الجماعت کے قائد مولانا احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ ترمیمی بل کی واپسی تک احتجاجی جاری رہے گا۔ جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے موقف اپنایا کہ گورنر پنجاب تحفظ ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون کہہ کر خود بھی توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مولانا امجد نے کہا کہ ترامیم کی کوشش کی گئی تو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ شیخ رشید کا میڈیا سے گفتگو میں موقف تھا کہ تحفظ ناموس رسالت کے معاملے پر پوری قوم علماءکے ساتھ ہے۔ ہم خیال لیگ کے رہنماﺅں نے ناموس رسالت ایکٹ پر حکومتی رویے کی بھر پور مذمت کی۔
ملک بھر کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں مساجد کے باہر احتجاجی مظاہروں نے تحریک نظام مصطفی کی یاد تازہ کردی۔ مدارس، اسکول اور کالج کے طلبہ نے بھی ملک گیر مظاہروں میں اپنا حصہ ڈالا۔ ناموس رسالت کے مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے اور تحریک کے کامیابی کے ساتھ آغاز نے ملک کے بہت سے حلقوں اور مبصرین کو چونکا دیا ہے۔ اس سے حکمرانوں کو اندازہ ہوجانا چاہیے کہ قوم ناموس رسالت کے قانون کے تحفظ کے لیے بیدار اور چوکس ہے۔ اس قانون کو چھیڑنے کی صورت میں عوام کسی بھی انتہا تک جانے سے دریغ نہیں کریں گے۔ ابتدائی مرحلے میں تحریک میں شریک دینی اور سیاسی جماعتوں کو ملنے والی بھر پور پذیرائی کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ 31 دسمبر جمعہ کو ہونے والی شٹر ڈاﺅن ہڑتال بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ بعدازاں اتوار 9 جنوری 2011ءکو کراچی میں بڑے احتجاجی مظاہرے کے بعد آیندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
ایک طرف نبی علیہ السلام کی حرمت پر کٹ مرنے والے اپنے تمام اختلافات بھلاکر مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد میں مصرف عمل ہیں تو دوسری طرف حکمران نبی علیہ السلام کی حرمت اور تحفظ کے قانون کو ختم کرنے کے درپے ہیں تاکہ بیرونی آقا ان سے کسی طرح راضی ہوجائیں۔ حالانکہ اٹل حقیقت تو یہی ہے کہ وہ ان سے کبھی بھی راضی نہیں ہوسکتے لیکن اس کے ساتھ ہی اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جسے اندرون و بیرون ملک مذہبی حلقوں کے سب سے زیادہ قریب تصور کیا جاتا ہے اتنے اہم معاملے پر اس کی پراسرار لاتعلقی کی وجہ کیا ہے، ن لیگی رہنماﺅں نے اس معاملے پر چُپ سادھ رکھی ہے جس سے ان کے متعلق پیدا ہونے والے سوالات اور شبہات کو مزید شہہ اور تقویت مل رہی ہے۔
جس پیپلزپارٹی کے دور میں قادیانی آئینی طور پر کافر قرار دیے گئے آج اسی جماعت کے دور حکومت میں حضور علیہ السلام کے ناموس کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کو ترامیم کے ذریعے غیر موثر کرنے اور گستاخان رسول کو تحفظ دینے کی سازشیں عروج پر ہیں، کتنے ہی افسوس کی بات ہے جو ملک اسلام اور کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا آج اسی ملک میں توہین رسالت کے انسدادی قوانین کے خاتمے اور گستاخی کے مرتکب افراد کو چھوٹ دینے کے لیے اقدام کیے جارہے ہیں۔ کیا نام نہاد سیاسی رہنماﺅں میں دینی غیرت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی؟ یہ اسی نبی کے نام لیوا ہیں تو پھر انکی حرمت پر حملہ آور ہونے والوں سے اتنی ہمدردی کیوں جتائی جارہی ہے؟
ایک طرف نبی علیہ السلام کی حرمت پرکٹ کرنے والے شمع رسالت کے لاکھوں پروانے میدان عمل میں کود پڑے ہیں تو دوسری طرف برسراقتدار طبقے کی جانب سے توہین رسالت کے انسدادی قوانین کے خاتمے کی کوششیں بدستور جاری ہیں، حکمرانوں نے اس قانون میں ترمیم کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ حکمران پیپلزپارٹی نے اپنی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن کا بل واپس لینے کا اعلان نہیں کیا۔ جبکہ وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی نے اقلیتوں کے تحفظ کا بل قانون سازی کے لیے جنوری میں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا اعلان کردیا ہے اور وزیر موصوف کا موقف ہے کہ ترمیم کا مقصد قانون کا غلط استعمال روکنا ہے اور حکومت اس قانون کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب ملکی تاریخ کی کمزور حکومت بحرانوں کے وباﺅں سے نبرد آزما ہے، ملک میں بدامنی اور لاقانونیت عروج پر ہے ایسے میں حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور بیرونی دباﺅ پر ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کرسکتی ہے۔ اس قانون میں ترمیم کی کوششوںکے خلاف سیاسی اور مذہبی جماعتیںپہلے ہی مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد ہوچکی ہیں ایسے میں اگر اس تحریک نے مزید زور پکڑلیا تو حکومت کے گرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو قومی مفاد عزیز ہے تو کم سے کم اس کی خاطر ہی اپنے مذموم مقاصد سے دست بردار ہوجائیں ورنہ یہ بات تو یقینی ہے کہ قوم حکمرانوں کی اس قسم کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ کیا حرمت رسول کی خاطر چلائی جانے والی تحریک کے مزید زور پکڑنے کی صورت میں حکمران اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے ذمہ دار حکمران نہیں ہونگے؟
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے روٹی کپڑا اور مکان تعلیم و صحت کی فراہمی سوشل سیکورٹی جیسے بنیادی مسائل حل کردیے ہیں جو اس طرح کی غیر ضروری ترامیم کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئی ہے۔ حکومت عوامی مسائل کے حل کے دعوے تو کرتی ہے ۔ مگر عملاً اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں نے گزشتہ 3 برسوں میں قوم کے بنیادی مسائل میں اضافہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ حکومت عوام سے روٹی کپڑا اور مکان چھیننے کے بعد اب مسلمانوں کو دولت ایمان سے بھی محروم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے ان اقدامات سے یہ بات ضرور ظاہر ہوگئی ہے کہ قوم کو بنیادی ضروریات اور سہولیات کی فراہمی حکمرانوں کی ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں۔ اگر موجودہ حکمران اپنی روش تبدیل کرنے پر راضی نہیں تو آیندہ انتخابات میں ووٹ کس منہ سے مانگیں گے اور کیا پیپلزپارٹی کے رہنما اپنے اپنے حلقوں کے ووٹروں کا سامنا کرسکیں گے؟؟؟