URDUSKY || NETWORK

ترنگا یاترا یا فتنہ یاترا

94

تحریر:ڈاکٹر خواجہ اکرام
ہندوستان جو دنیا کی بڑی جمہوریت میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا وقار دنیا میں اسی وجہ سے بلند ہے کہ یہاں جمہوری اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے لیکن گذشتہ تین دہائیوں سے کچھ موقع پرست سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے دامن پر اتنے داغ لگائے ہیں اور جمہوریت کے دامن کو اتنا تار تار کیا ہے کہ اسے اگر وقت رہتے نہ بچایا گیا تو ہندوستان کی جمہوریت کی یہ شان و شوکت بہت جلد رسوائی میں تبدیل ہوجائے گی۔اس ملک کی خوش نصیبی یہ ہے کہ یہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگ رہتے ہیں اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے سبب ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ لیکن اس کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں کی کچھ سیاسی جماعتیں جن کا تعلق کسی نہ کسی مذہبی عقیدت سے ہے وہ اس ملک کو ہند و ملک بنانے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ اس ضمن میں کئی پارٹیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن دراصل اس طرح کی سبھی سیاسی اور نیم سیاسی پارٹیاں ایک ہی کنبے کی ہیں یا ایک ہی فکر سے منسلک ہیں۔ان میں بھارتیہ جنتا پارٹی سر فہرست ہے۔urdusky
بھارتیہ جنتا پارٹی کا معاملہ یہ ہے کہ اس پارٹی نے دہائیوں سے بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کانگریس کو ایک جذباتی مسئلے کو اشتعال دے کر اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ حکومت میں بیٹھنے کا مزہ جب سے اسے ملا ہے وہ بھوکے شیر کی طرح ہندوستان کا خون پینے کے لیے بے قرار ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی یہ وہی پارٹی ہے جو آرا یس ایس کا سیاسی مہرہ ہے۔ اسی پارٹی نے اور اسی کے نظریاتی تنظیم نے ہندوستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی۔ یہ وہی پارٹی ہے جس نے ہندوستان میں سیاست اور جمہوریت کی دہائی دے کر ملک کے امن و امان کو تباہ وبرباد کیا۔ نوے کی دہائی میں لال کرشن اڈوانی نے رتھ یاترا نکال کر پورے ملک میں نفرت کا زہر پھیلایا اورہندو اور مسلم کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا کردی جسے پاٹنا مشکل ہے۔اڈوانی کی اس مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔اب جب بابری مسجد کو لوگ بھول چکے ہیں اور نفرت کی یہ آگ ٹھنڈی پڑ گئی ہے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ وہ کس مسئلے کو اپنا سیاسی حربہ بنائے۔ حالانکہ اس جمہوری ملک میں کئی مسائل ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے مہم چلانے کی ضرورت ہے۔لیکن اس پارٹی کو ملک کی فلاح و بہبود سے کیا واسطہ یہ پارٹی تو محض اپنے وجود کے لیے لڑ رہی ہے۔اسے تو ایسا مسئلہ چاہیے جو اشتعال انگیز ہو۔اور اشتعال کے نام پر سوائے مسلمانوں کے اور کسے استعمال کر سکتے ہیں۔اور ان کی نظر میں مسلمان اور دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔ ہر معاملے میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا اور ان کے خلاف باتیں کرنے میں وہ نہیں تھکتے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی کے حوالے سے بار بار بلاوجہ نشانہ بنانا ان کا شیوہ ہے۔ ان کی تان دہشت گردی سے شروع ہوتی ہے اور دہشت گردی پر ہی ٹوٹتی ہے۔ لیکن ابھی ملک میں دہشت گردی کا جو نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ اس کے حوالے سے وہ بغلیں جھانک رہے ہیں۔ تمام شواہد موجود ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے جڑے یا ان کے نظریات کے حامی افراد نے ہی مکہ مسجد ، اجمیر شریف ، مالیگاوں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے کیے۔ دہشت گردی کا یہ ایسا چہرہ ہے جو ملک میں ہندستانیت کو عام کرنے کی باتیں کرتے ہیں ، جوملک میں دہشت گردی ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔لیکن وہ تو خود دہشت گرد ہیں۔ اب تک انھوں نے ایسے کتنے ہی گھناؤنے کام کیے ہیں۔ لیکن ہر فتنہ پھیلانے کے بعد انھوں نے تمام معاملات کے پیچھے مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ حیدرآباد، ممبئی اور بنگلور سے کئی ایسے مسلم پکڑے گئے جو اِن الزامات میں جیل کے اندر ہیں ، جو انھوں نے کیا ہی نہیں۔ان تمام معاملات میں یہی لوگ شریک تھے۔ اب جبکہ سب باتیں واضح ہوچکی ہیں اور تمام ثبوت مل چکے ہیں تب بھی ان بے قصور مسلمانوں کو ابھی تک جیل سے رہا نہیں کیا گیا ہے۔ اور یہ بے شرم پارٹی جو انصاف اور عدل کی باتیں کرتے نہیں تھکتی اس کے منہ سے ان بے قصوروں کو چھوڑنے کی ایک بات بھی نہیں نکلی۔حد تو یہ ہے کہ کچھ مسلمان بھی اس طرح کی فرقہ پرست پارٹیوں میں ہیں وہ بھی بے غیرت ہو چکے ہیں۔ وہ بھی اپنی قوم پر ستم ڈھانے والی پارٹی کے کے رویے اور نظریات سے جڑے ہوئے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی حقیقت کو بے نقاب ہونے سے بچانے کے لیے اور لوگوں کے ذہن کو بانٹنے کے لیے طرح طرح کے اشتعال انگیز اقدامات کررہی ہی۔ تاکہ لوگ ان کی کرتوتوں کو بھول جائیں اور ان کی وطن دوستی کے فریب میں آجائیں۔ابھی اس نے کولکتہ سے ترنگا یاترا نکالا ہے جو 26 جنوری کو کشمیر کے مشہور لال چوک پر ہندوستانی پرچم لہرانے کے بعد ختم ہوگا۔ حیرت ہے کہ اس پارٹی کو حکومت نے بھی ابھی تک نہیں سمجھا ہے۔اور کانگریس تو اس قدر محتاط رویہ اپناتی ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ لگتا ہے کہ پھونکتی زیادہ ہے اور قدم نہیں بڑھاتی۔ اب تک حکومت نے اس نفرت پھیلانے والی یاترا کو نہیں روکا ہے اور نہ کوئی واضح لائحہ عمل طے کیا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر جانب سے بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بیان بازیاں ملک کے ماحول کو گرما رہی ہیں۔اس ترنگا یاترا کا مطلب ہی ماحول کو گرمانا ہے۔ بی جے پی نے ہمیشہ ملک کے ماحول کو بگاڑنے کا کام کیا ہے۔اب جب ماحول اشتعال پرآرہا ہے تو بی جے پی کا منشا پورا ہو رہاہے۔ اس لیے اس نے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو چیلینج دیا ہے کہ ہمیں کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
اس ماحول سے علاحدگی پسندوں کو بھی موقع مل گیا ہے۔وہ بھی اپنے بیانات سے کشمیر کی سردی کو گرمی میں بدل رہے ہیں۔ علیٰحدگی پسند لیڈرمحمد یٰسین ملک نے چھبیس جنوری کو’لال چوک چلو‘ کی کال دی ہے اور بی جے پی کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بی جے پی کو لال چوک میں جھنڈا لہرانے کی’اجازت‘ نہیں دینگے۔اور بی جے پی کے کشمیر یونٹ کے نائب صدر صوفی یوسف نے پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’عمرعبداللہ کو بیچ میں نہیں آنا چاہیئے۔ سپریم کورٹ کی ایک رولنگ ہے جس میں واضح ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی شہری کہیں بھی کسی بھی وقت ترنگا لہرا سکتا ہے‘۔یوسف نے کہا کہ عمرعبداللہ کی طرف سے پرچم کشائی کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کا معاملہ بی جے پی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ اٹھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر’ایکتا یاترا‘ کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی تو بی جے پی کے مقامی کارکن لال چوک کا رخ کرینگے۔اور ہمارے بیس ہزار کارکن جو کشمیر میں موجود ہیں وہ وہاں جھنڈا ل لہرائیں گے۔ بی بی سی کے تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ”1992 میں بھی بی جے پی کے لیڈر مرلی منوہر جوشی نے لال چوک کے گھنٹا گھر پر ترنگا لہرایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لال کرشن ایڈوانی رتھ یاترا کر رہے تھے مرلی منوہر جوشی کے اس ’روڈ شو‘ سے دو نتائج نکلے۔ مسلح شدت پسند الگ الگ گرہوں میں بٹے تھے اور آپس میں لڑرہے تھے۔ اس واقعے نے ان گروہوں کو’شوریٰ جہاد‘ نامی فورم پر دوبارہ متحد کر دیا اور شدت پسندوں نے لال چوک کو بھی اپنی کارروائیوں کا ہدف بنایا۔ دوسری طرف علیٰحدگی پسندوں نے بھی الگ الگ تنظیم سازی کا عمل ترک کرکے جوشی کی پرچم کشائی کو ایک نفسیاتی چیلنج سمجھتے ہوئے کل جماعتی حریت کانفرنس کا قیام عمل لایا۔“انیس سال بعد اب بی جے پی نے دوبارہ کشمیر کا رخ کیوں کیا ہے؟ یہ سب کو معلوم ہے۔ حکومت بھی سمجھ رہی ہے لیکن اس کی خاموشی حیرت انگیز ہے جب حالات بگڑ جائیں گے تب شاید اس کی نیند کھلے گی۔اس وقت دیر ہوچکی ہوگی۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ صرف اقتدار پر نظر نہ رکھے بلکہ ملک کی سا لمیت کو اہم سمجھے اور ایسے عناصر کی بد نیتی کو عوام کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کرے۔ لیکن مرکزی حکومت یہ کہہ کر اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کررہی ہے کہ لا اینڈآرڈر کا معاملہ ریاستی حکومت کا ہے اس لیے وہ پہل کرے مرکز اس کے ساتھ ہے۔ حالانکہ کانگریس بھی یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ تمام معاملات صرف سیاسی ہیں بی جے پی کی اصل لڑائی کانگریس سے ہے۔ بی جے پی نے پارلیمنٹ میں تماشہ کر کے دیکھ لیا ، نتیجہ کچھ نہیں نکلا تو پھر اشتعال انگیزی کا سہار ا لیا ہے اور کشمیر کو کانگریس سے لڑنے کے لیے اسٹیج بنایا ہے۔ بی جے پی کی اس بے شرمی اور ملک دشمنی کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭