بوٹیاں نوچتے گدھ اور زخم زخم عوام ۔ ۔ ۔ ۔
بوٹیاں نوچتے گدھ اور زخم زخم عوام ۔ ۔ ۔ ۔
مہنگائی کی ماری قوم کیلئے سال نو کا پہلا تحفہ ۔ ۔ ۔ ۔
”ہمارے سامنے ایک زخمی گدھا کھڑا تھا،گدھے کی پیٹھ پر ایک گدھ بیٹھا تھا اورگدھ کی گردن گدھے کی پیٹھ کے سوراخ میں گم تھی،پیٹھ پر صرف گدھ کے پر اور پاؤں دکھائی دے رہے تھے،گدھا تکلیف سے چیخ رہا تھا،لیکن گدھ اُس کو اندر سے کاٹ کاٹ کر کھارہا تھا،تھوڑی دیر بعد گدھ نے اپنی چونچ سوراخ سے باہر نکالی تو وہ گردن تک گدھے کے لہو میں لتھڑا ہوئی تھی۔“
اردو کے مشہور ادیب مستنصرحسین تارڑ کی تحریر کایہ خوفناک منظر آج بھی پنجاب اور سندھ کے بعض گاؤں اور دیہاتوں میں موجود اُس روایت کی عکاسی کرتا ہے،جس میں گاؤں کے لوگ زخمی،معذور اور ناکارہ گدھے اور خچر جو کام کاج کے قابل نہیں رہتے، گاؤں کے باہر ایک ایسے احاطے میں چھوڑ دیتے ہیں،جو اُن کی آخری آرام گاہ ہوتی ہے،اُس احاطے کی دیواروں اور درختوں پر چیلیں اور گدھ بیٹھے ہوتے ہیں،یہ گدھ اور چیلیں اُس زخمی اور معذور گدھے کا گھیراؤ کرلیتے ہیں اور اُس کی پیٹھ پر سوار ہوکر اپنی تیزاور نوکیلی چونچ سے گدھے کی پیٹھ میں سوراخ کرتے ہیں اور زندہ گدھے کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانا شروع کردیتے ہیں ۔
بعینہ ہمارے حکمران بھی اپنی عوام کے ساتھ یہی سلوک کررہے ہیں،وہ بھوک،غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان چیختے چلاتے اور زندگی کی بقاءکی جنگ لڑتے عوام کونت نئے ٹیکس،بجلی،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تیز اور نوکیلی چونچ سے کاٹ کاٹ کر کھارہے ہیں،لیکن اپنے عیش و عشرت میں کوئی کمی نہیں لارہے،حال یہ ہے کہ معیشت تباہ ہوچکی ہے،خزانہ خالی ہے اورملک گردن تک قرضوں میں جکڑاہواہے،لیکن عوامی حکومت کے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کیلئے مختص اخراجات 19 کروڑ 88 لاکھ روپے سے تجاوز کرکے 42کروڑ93لاکھ تک پہنچ چکے ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کی جانے والی آمدنی سے15کروڑ روپے صرف ایک باغ کی تعمیر پر خرچ کئے جاچکے ہیں،صرف تین کروڑ78لاکھ روپے وزیر اعظم کے قافلے کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں کی مد خرچ کیے گئے،جبکہ وزیر اعظم صاحب اپنی دو ہزار آٹھ اور نو کی تنخواہ کی مد میں مختص سات لاکھ59ہزار روپے سے 13لاکھ17ہزار روپے زائد وصول کرچکے ہیں،یہی حال بھاری بھرکم اراکین کابینہ کا ہے،جس کے ایک وزیر کا سالانہ خرچہ 16کروڑ اور کل کابینہ کا سالانہ خرچ 15 ارب 36 کروڑ بنتا ہے،اِس کے باوجود وزیر اعظم صاحب کمال سادگی سے فرماتے ہیں کہ ”حکومت پٹرول پر مزید سبسڈی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔“جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات سارا بوجھ اوگرا پر ڈال کروزیر اعظم کوتازہ اضافے سے بری الذمہ قرار دینے اورحکومت کو عوامی رد عمل سے بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔
حیرت کی بات ہے کہ عوامی دکھوں کا مداوا بننے کی دعویدار حکومت نے مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے ہوئے عوام کو یکم جنوری سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے سال نو کا پہلا تحفہ دیا ہے،تازہ اضافے کے حوالے سے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب حکومت کی غلط مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے اُس پر دباؤ بڑھتا ہے تو وہ اوگرا کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اشارہ دے دیتی ہے کیونکہ اِس اضافے سے حکومت کو کم و بیش25 روپے فی لیٹر کے حساب سے مختلف ٹیکسوں کی صورت میں یقینی آمدنی ہوتی ہے،اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2010ء کے دوران وزیروں،مشیروں اور اعلیٰ بیوروکریسی کے شاہانہ اخراجات پورے کرنے کیلئے پٹرولیم مصنوعات اور گیس پر بھاری ٹیکسوں کے ذریعے غریب عوام سے 350 ارب روپے کی خطیر رقم نچوڑ ی گئی،یہ کسی ایک شعبے میں ٹیکسوں کی مد میں وصول کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے،خیال رہے کہ حکومت نے گزشتہ سال 6 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں قیمتوں میں 14.56 روپے کا ہوشربا اضافہ کیا،حکومت کے نزدیک عوام سے فوری رقوم کی وصولی کیلئے سب سے آسان طریقہ پٹرول،گیس اور بجلی کی قیمتوں اور ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہے، جس کے تحت موجودہ اور سابقہ حکمران عوام کا خون نچوڑتے رہے ہیں ۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں وہ اقتصادی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے نہ تو کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرسکے اور نہ ہی پیداواری عمل اور روزگار کے مواقع میں اضافہ کرکے غربت و افلاس اور بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے گراف پر قابو پاسکے،بلکہ وہ پہلے سے موجودہ پیداواری عمل کو بھی برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،اِس وقت گیس و بجلی کے بحران سے ہزاروں صنعتی ادارے بند اورلاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہوچکے ہیں،قیمتوں میں اضافے سے برآمدات میں ہونے والی کمی نے تجارتی خسارے میں خوفناک حد تک اضافہ کردیا ہے، عالمی مارکیٹ میں دوسرے ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے کئی منڈیاں پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئی ہیں،ماہرین کے مطابق حکومت کے پاس سرے سے کوئی پروگرام اور کوئی قابل عمل منصوبہ ہی نہیں،جب اُس پر دباؤ بڑھتا ہے تو اُسے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا صرف یہی ایک فارمولا قابل عمل دکھائی دیتا ہے ۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ اِس طریقہ کار پر عمل کرتے وقت حکومت قیمتوں میں ا ضافے کے خلاف عوامی ردعمل کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیتی،اگرعوام واویلا کرتے ہیں تو انہیں حوصلہ دینے کی بجائے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،جبکہ اچھی اور عوام کے دکھ درد کا خیال رکھنے والی حکومتیں عوامی ردعمل پر سنجیدگی سے توجہ دیتی ہیں، لیکن ہمارے یہاں حکومت ایسے اقدامات کی براہ راست ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتی بلکہ سارا بوجھ اپنے ماتحت کام کرنے والوں اداروں پر ڈال دیتی ہے،جس کی تازہ مثال وفاقی وزیر اطلاعات کا مندرجہ بالا بیان ہے،جبکہ دنیا بھر کے مہذب ممالک کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہاں ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ صاحب ثروت اور مالدار طبقے پر ڈالا جاتا ہے اور اُن سے حاصل ہونے والے محصولات کو متوسط اور نچلے طبقے پر خرچ کیا جاتا ہے تاکہ اُن کی قوت خرید برقرار رہے اور وہ خط غربت سے نیچے نہ چلے جائیں،لیکن وطن عزیز پاکستان کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے جبراً لئے جانے والے بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں سے ایسی شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا کسی بھی مہذب جمہوری تو کیا غیر جمہوری ملک کا حکمران اور عوامی نمائندہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ اگرجمہوری معاشرے میں حکومتیں عوامی مفاد کے کیلئے کام نہ کرپائیں اور عوامی مفادات سے لاپروائی اُن کا طرہ امتیاز اور وتیرہ بن جائے تو پھر انہیں صرف اپوزیشن جماعتوں کا سخت ردعمل ہی راہ راست پر لاسکتا ہے،لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسا بھی نہیں ہوتا،اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج بھی اُن کے اپنے مفادات کے حصول اور تحریک التواءتک ہی محدود رہتا ہے،کیونکہ عوامی مفادات کاتحفظ اُن کے ایجنڈے کا حصہ نہیں،اِس تناظر میں ہمیں اپوزیشن کے علاوہ بعض حکومتی اتحادی جماعتوں کا موجودہ ردعمل زبانی جمع خرچ سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا،ایسا لگتا ہے کہ ہماری اپوزیشن جماعتیں بھی عوامی حقوق اور مفادات کے تحفظ کے حوالے سے گویا بے حس ہوچکی ہے،انہیں اِس امر کا احساس ہی نہیں کہ ملک کے کروڑوں غریب موت کے کنارے تک پہنچ چکے ہیں،چنانچہ اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات حکومت پر زبانی تنقید اور صرف یہ کہہ کر مطمئن ہوجانا کہ ہم ظلم کا ساتھ نہیں دیں گے،صورتحال کا ازالہ کرسکتے ہیں نہ ہی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں،لہٰذا مہنگائی کے ہاتھوں جاں بہ لب عوام کے پاس اِس سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ یا توجرم کا راستہ اختیار کریں یا خودکشی کر کے اپنے آپ کو ہی ختم کر لیں ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت کے تین سالہ دور اقتدار نے عوام کو سوائے مایوسیوں،بھوک اور دکھوں کے کچھ نہیں دیا،اب تو غریب لوگ جمہوری حکومت کو بددعائیں دیتے ہیں،جس نے اُن کی زندگیوں اجیرن بنا کر رکھدی ہے ہیں،پہلے ہی کیا عوام پر یوٹیلٹی بلوں کی مد میں کم بوجھ تھا کہ اوپر سے ہر ماہ بلوں میں اضافے کے علاوہ کھانے پینے کی ضروری اشیاءمیں اضافہ کیا جارہا ہے،حکومت اپنے اللے تللے، عیاشیوں اور بے جا بیرونی ممالک کے دورے کم کرنے کی بجائے مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر لادھ رہی ہے،غربت،بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں،اپنے جگر کے ٹکڑے بیچنے پر مجبور ہیں،اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے سینکڑوں صنعتیں بند ہیں،لاکھوں مزدور بے روزگاری کا شکار ہیں،اُن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ہیں لیکن حکمرانوں کو اِس کی کوئی فکر نہیں،وہ اقتدار کے ایوانوں میں ایسے فیصلے کررہے ہیں جس نے ایک عام آدمی کا زندہ رہنا مشکل کردیاہے حکومت نے پٹرول،ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں جو غیرمعمولی اضافہ کیا ہے، اِس کے اثرات ضروریات زندگی کے نرخوں میں اضافے کی شکل میں پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں،ہماری نظر میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ حکومت کا ایک ایسا فیصلہ ہے،جس سے طوفانی مہنگائی کا ایک نیا ریلہ ہی نہیں آئے گا بلکہ ٹرانسپورٹ کے پہلے سے ناقابل برداشت کرایوں میں مزید اضافے سے شہری زندگی ساکت و جامد ہو کر بھی رہ جائے گی ۔
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے اٹھارویں اور انیسویں ترمیم پاس کراکے آئین کوبحال کیا ہے،این ایف سی ایوارڈ،آغاز حقوق بلوچستان پیکیج جیسے اقدامات سے اختلافات کا کسی حد تک خاتمہ ہوا،لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ جس اٹھارویں اور انیسویں ترمیم کو وزیر اعظم عوام کیلئے نئے سال کا تحفہ قرار دے رہے ہیں،کیا اِس سے عوام کی بھوک مٹ جائے گی،کیا غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر لوگ اپنے گردے نہیں بیچیں گے،کیا بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا اورکیا عوام کے تمام مسائل حل ہوجائیں،اگر اِن تمام سوالوں کا ہاں میں ہے تو واقعی وزیر اعظم صاحب یہ قوم کیلئے سب سے بڑا اور قیمتی تحفہ ہے،اِس کامیابی پر ہم آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں،لیکن اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں، توآپ اِن ترمیمات کو ملک کی عوام کیلئے سال کاتحفہ قرار دے کر اُن کے زخموں پر نمک پاشی نہ کریں،جناب صدر اور محترم وزیر اعظم صاحب ،عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ آپ تو روٹی،کپڑا اور مکان کے نعروں کی گونج میں اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے تھے،آج اُس نعرے کا کیا بنا،کیا آپ پاکستان کے کروڑوں غریبوں کیلئے بھی کوئی تحفہ دیں گے یا یہی سناتے رہیں گے کہ عوام انتظار کریں،ہمیں پانچ سال پورے کرنے دیں،ہم عوام کو ریلیف دیں گے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوری حکومت اور سیاستدانوں کو 63 برسوں کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور آمروں کے میرے”عزیز ہم وطنو“ کی آواز کے ساتھ اقتدار پر قابض ہونے کی وجوہات کا تدارک کرکے حقیقی معنوں میں اپنی اصلاح اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کا بہترین موقع ملا ہے،اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو صاف نظر آرہا ہے کہ عوام جمہوری حکومتوں سے نالاں ہوکر غیر جمہوری قوتوں کی جانب دیکھیں گی، جس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت اورسیاستدانوں پر ہی عائد ہوگی،کیونکہ عوام نے تو انہیں جمہوری طریقے سے منتخب کیا تھالیکن یہ خود نہ تو جمہوریت کی حفاظت کرسکتے ہیں اور نہ عوامی حقوق کی،لہٰذا آج ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ملک کی اپوزیشن اور تمام سیاسی پارٹیاں حکومت کے باقی رہنے یا جمہوری طریقے سے چلے جانے کی فکرکرنے کی بجائے ملک اور قوم کے مفادات کو مقدم رکھیں جبکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے اُس کے ممکنہ حل کی طرف بھر پور توجہ دے،کیونکہ ِاسی میں جمہوریت کی بقاءاور استحکام کا راز مضمر ہے ۔
٭٭٭٭٭