URDUSKY || NETWORK

بزنس مین سیاستدان

84

ریفارمز جنرل سیلز ٹیکس اور فلڈ ریلیف ٹیکس کا ترمیمی بل پارلیمنٹ مے پیش کردیا گیا یہ بل امپورٹ شدہ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے پیش کیا جسے ایوا ن farzand-Aliکی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے سپرد کردیا گیا اس بل کے ایوان میں پیش ہونے پر مسلم لیگ (ن) ،مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کی جبکہ جمعیت علماءاسلام (ف) اور اے این پی نے بھی دھبے لفظوں اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جسکا وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے برامنایا اور سوال کیاکہ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے 160ارب روپے کہاں سے لاوں ؟
پاکستان کاماضی گواہ ہے کہ خود کو جمہوری اور عوامی حکومت کہلوانے والوں نے اپنے مفادات کے سواکبھی عوام کا خیال ہی نہیں رکھا انہیں صرف اتنا پتا ہوتاہے کہ الیکشن میں کامیابی کیلئے کتنے کروڑ یا کتنے لاکھ روپے لگائے تھے اب اس کے بدلے کتنے کروڑ روپے کمانے اور کہاں کہاں جائیداد بنانی ہے ؟اس فارمولے کے پیش نظر یہ کہاجاسکتاہے کہ ہمارے سیاستدان خادم نہیں بلکہ بزنس مین ہیں جو پارلیمنٹ میں آنے کیلئے روپیہ لگاتے ہیں اور بعدازا اس روپے کے بدلے میں ڈالرز اکٹھے کرتے ہیں ایسے افراد کو عوام کے دکھ درد سے کیا ؟انہیں کیا پتہ ہو کہ اس ملک میں چینی 130روپے کلو ،آٹا 40روپے کلو ،دالیں 70روپے سے 200روپے کلو ،گھی 150روپے کلو ،چاول 90روپے کلو اور پیٹرول و ڈیزل تقریباً 80روپے لیٹر فروخت ہورہاہے پارلیمنٹ میں موجود 99فےصد ارکان تواپنے گھروں میں کھانا بھی نہیں کھاتے وہ تو ہرروز کسی نہ کسی بڑے ہوٹل میں ہی کھاناکھاتے یا سیر سپاٹے کیلئے بیرون ممالک مقیم ہوتے ہیں آخر انہیں کیا پتہ ہے ؟کہ ہمارے ملک کی 80فےصد عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں انہیں کیا پتہ ؟کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے آئے روز جو انڈسٹری بند ہورہی ہے اس سے بےروزگاری میں دن بدن اضافہ ہوتاہے جارہاہے انہیں کیا پتہ ؟ کہ ان کے اعلان کے باوجود آج مزدوروں کو 7000روپے سے بھی کم مزدوری ادا کی جارہی ہے انہیں کیا پتہ ؟کہ ماں ،باپ، بیوی اور کم ازکم تین بچے رکھنے والا ایک خاندان کا سربراہ مزدور کس حال میں زندگی گذار رہاہے انہیں کیا پتہ ؟کہ اس مزدور نے بجلی ،پانی ،سوئی گےس کابل ،سوداسلف ،مکان کا کرایہ ،علاج معالجہ ،خوشی وغمی اوربچوں کے تعلیمی اخراجات کیسے پورے کرنے ہیں ؟ انہیں کیا پتہ ؟کہ پاکستان میں بسنے والے غریب لوگوں کو گوشت ،دودھ ،دہی اور پھل نصیب بھی ہوتاہے یا نہیں ۔ہاں انہیں یہ پتہ ہے کہ الیکشن میں کتنے لاکھ یا کروڑ لگے تھے اب اس کے بدلے کتنے کروڑ بنانے ہیں انہیں یہ پتہ ہے کہ اب کونسا پراجیکٹ شروع کرنا اور اس میں کتنی کمیشن حاصل کرنی ہے انہیں یہ پتہ ہے کہ کس کس ملک کے کون کونسے اکاونٹ میں کتنا سرمایہ جمع ہو گیا ہے انہیں یہ پتہ ہے کہ کونسے ماڈل کی نئی گاڑی آرہی ہے اور انہوں نے وہ کب خریدنی ہے ؟انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ فلاں فلاں محکمے کی کتنی جائیداد ہیں اور انہیں کسطرح کوڑ یوں کے بھاو اپنے نام منتقل کراناہے؟
جن بزنس مین سیاستدانوں کو یہ سب پتہ ہے انہیں غریب عوام کا کسطرح درد محسوس ہوسکتاہے ؟اس لئے عوام کسی خوش فہمی کا شکار نہ رہے جو سیاستدان آج ریفارمز جنرل سیلز ٹیکس اور فلڈ ریلیف ٹیکس کے ترمیمی بل کی مخالفت کررہے ہیں ان کے نمائندے کابینہ اور دیگر اجلاسوں میں اس بل کی حمایت کرچکے ہیں یہ صرف عوام دِکھاوا کہ ہم عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں حالانکہ یہ عوام کے حقوق کی نہیں ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر چند روز قبل 10نومبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کو ملاحظہ فرمایاجائے تو اس اجلاس میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی اور ان کے اتحادی ایم کیو ایم ،اے این پی اور جے یو آئی (ف) نے بھی شرکت کی تھی اس میں ریفارمز جنرل سیلز ٹیکس اور فلڈ ریلیف ٹیکس کے ترمیمی بل کی متفقہ منظوری دی گئی اگر چند ماہ قبل وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے اجلاس کا بغور جائزہ لیا جائے تو چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس کی منظوری دی تھی اس میں پنجاب کے وہ وزیراعلیٰ پنجاب (خادم اعلیٰ )بھی موجودتھے جنکا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اس لئے 12نومبر کو ریفارمز جنرل سیلز ٹیکس اور فلڈ ریلیف ٹیکس کے ترمیمی بل کو پیش کرنے کے بعد اپنی تقریر میں حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے کہاکہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آج جو تمام جماعتیں ان بل پر اختلاف کررہی تھی وہ سب کابینہ کے اجلاس میں حمایت کررہی تھی جبکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی وزیراعظم کے اس بیان کی کسی پارٹی نے کھل کر تردیر نہیں کی صرف دھبے لفظوں میں وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا حالانکہ اگر کابینہ کے کسی اجلاس میں کسی مسئلے پر کوئی اختلاف کرتاہے تو اسکا باقاعدہ اختلافی نوٹ لکھتاہے جو کسی نے نہ لکھا اسطرح ریفارمز جنرل سیلزٹیکس اور فلڈ ٹیکس کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف نے بھی کھل کر یہ نہیں کہاکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس بل کی حمایت نہیں کی تھی تاہم اس وقت وہ بعض تحفظات کی بناءپر دونوں بلوں کی مخالفت کر رہے ہیں اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ بزنس مین سیاستدان اپنا فائدہ سامنے آنے کے بعد عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرانے سے دریغ نہیں کریں گے ۔
وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے پارلیمنٹ میں سوال اٹھایاتھاکہ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے 160ارب روپے کہاں سے لاویں ؟ہمارا ان کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں ،پارٹی اور جیل کے ساتھیوں کی کرپشن کو ختم کردیں اور ان سے لوٹا ہوا روپیہ اور معاف کروائے گئے قرضے واپس لے لیں تو آپ کو 160ارب کیا اس ملک کا سارا قرضہ اتارنے کا روپیہ بھی مل جائے گا ذرا ہمت تودیکھائیں اور تسلیم کریں کہ پی آئی اے ،پاکستان ریلوے ،واپڈا،پاسکو،این ایچ اے ،پاکستان سٹیل مل،ٹی سی پی ،نیشنل انشورنس کارپوریشن آف پاکستان اوریوٹیلٹی اسٹورجیسے اداروں میں کرپشن کس کے دور میں عروج پر پہنچی یہ منافع بخش قومی ادارے آج دیوالیہ کیوں ہوگئے ہیں ؟پوری دنیا کے سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے والے حکمران آصف علی زرداری ،میاں نوازشریف اور ان دونوں کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے بزنس مین سیاستدان خود بیرون ملک سرمایہ کاری کیوں کررہے ہیں ؟وہ اپنا روپیہ پاکستان کیوں منتقل نہیں کررہے ؟وہ پاکستان کے زرمبادلہ میں اضافے کیلئے خود پہل کیوں نہیں کرتے ؟اسکا جواب صرف یہی ہے کہ یہ ملک ان بزنس مین سیاستدانوں کانہیں ہے بلکہ وہ توپاکستان کی غریب عوام کے ساتھ کاروبارکرتے ہیں اور جب ان کے کاروبار کو خطرہ محسوس ہوتاہے تو وہ باہر اپنی دنیا میں بھاگ جاتے ہیں ان بزنس مین سیاستدانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے انہیں اس وقت سے بھی ڈرنا چاہیے جب ان ظالموں کا خاتمہ کرنے کیلئے کوئی اللہ کا بندہ میدان میں اترے گا اور عوام کی اصل طاقت سے ان ظالموں کا خاتمہ کردے یقیناً مجھے ہی نہیں پوری قوم کو اس انقلاب کا انتظار ہے اس ملک میں تبدیلی اب ووٹ کی پرچی سے نہیں بلکہ لاٹھی اور گولی کے ذریعے انقلاب سے آئے گی کیونکہ ووٹ کی پرچی سے صرف چور ڈاکو ہی آتے ہیں اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو پاکستان کا ماضی دیکھ لیں۔