URDUSKY || NETWORK

بدنام ہوںگے توکیا…..؟؟نام نہ ہوگا…….

141
خصوصی کالم: تمثیلِ سیاست
بدنام ہوںگے توکیا…..؟؟نام نہ ہوگا…….
پاکستان دنیاکا بدعنوان ملک بننے کی دوڑمیں 47سے42نمبرپرآگیا…..بولو …کیسا…..؟؟؟
محمداعظم عظیم اعظم
اُف زوالِ وطن کا یہ آغاز  اُف کمالِ وطن کا یہ انجام!     آہ ! یہ ملکُ ! آہ یہ ملت  آہ یہ قوم ! آہ یہ اِسلام
یہاں مجھے اِس شعر کی تشریح بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بس مجھے یہ شعر یادآگیاتو میں نے لکھ دیااَب اِسے پڑھنے والے خود سمجھیں اور اِس کی تشریخ اپنی اپنی عقل اور سمجھ دانی کے مطابق خودکریں اور یہ فیصلہ کریں کے اَب ہم کو اپنے وطن کے لئے ایساکیاکچھ اچھاکرناہے کہ ہماراملک بھی عظمتوں کے مینار سے بھی زیادہ بلندہوجائے۔اورہم ذلت و رسوائی کی اِس دلدل سے نکل کراپنا کل بہتربناسکیں جس پر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی فخر ہواور وہ اپنے پرکھوں پر بھی نازکرسکیں ..اوراَب یہ سوچنے اور سمجھنے کا کام ہم سب کاہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں دنیامیں اپنا وقار مجروح ہونے سے بچانے کے لئے کیاکیاجتن کرنے ہوں گے……؟؟کہ ہماراکھویاہواوقار بحال ہوسکے۔بہر حال مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ آج میں جس وطن کا باشندہ ہوں وہ ساری دنیا میںاپنے نام اور معنی کے لحاظ سے ایک پاک اور عظیم ترین ملک کی حیثیت سے اپنی سب سے منفرد اور جُدا پہچان ضروررکھاتا ہے مگربدقسمتی سے اِس وطن عزیز جِسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے اِس پر گزشتہ 62سالوں میںجتنے حکمران آتے رہے ہیںسب اِس کا وجود گدکے مانندنوچتے رہے اور جس کا جہاں سے جتنابھی بس چلاسب سیاہ سفیدکرکے قومی خزانے سے لوٹ مارکرتے رہے اور اپنا اپناپیٹ بھرکرچلتے بنے اور آج بھی اِس سرزمینِ پاکستان پر ایسے ہی حکمرانوں کا راج ہے جو ایک لاٹھی سے سب کو ہانک رہے ہیں اِن کی نظر میں ہاتھی گھوڑااور سیاہ سفید سب برابر ہیںاور یہ وہ حکمران ہیں جوا پنی اصلاح سے متعلق کسی کا ایک لفظ بھی سُننے کو تیار نہیں ہیں گوکہ اِن کے نزدیک اگر کوئی اچھاہے تووہ اِن کا لایاہواوہ مفروضہ اور قانون جسے یہ اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں وہ ہی اِن کے لئے کارآمدہے اور باقی سب کچھ غلط ہے۔شائد ہمارے موجودہ حکمرانوں کے اِسی روئے کے باعث گزشتہ دنوںٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کرپشن کے حوالے سے ایک سنگین نوعیت کی چارج شیٹ جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ بتایاگیاہے کہ روان سال 2010کے دوران کرپشن کا ناسور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے جس کا تدارک کیاجانابہت ضروری ہے ورنہ اِس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمدہوں گے اوراِس کے ساتھ ہی اِس چارج شیٹ میں اِس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی کی ایلفی لگی جوڑی نے ملک میں کرپشن کو گزشتہ سال 2009کے مقابلے میںآسمان کی بلندیوں تک پہنچادیاہے جو ایک عام پاکستانی سمیت عالمی ادادورں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی آپس کی لیپاپوتی اور ایک دوسرے کو تھپکی دینے اور اپنا حکومتی وقت گھسیٹنے جیسے عمل کے باعث جہاں ملک میں عوام کو موجودہ حکمرانوں سے مایوسی ہوئی ہے تو وہیں اِن حکمرانوں کی ناقص حکمتِ عملیوں اور فرسودہ منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک میں کرپشن کے کلچرل کو بھی فروغ حاصل ہواہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک میں کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور پاکستانی قوم اِن حکمرانوںکے اِس فعل شنیع کی وجہ سے دنیاکی کرپٹ ترین قوموںاور ممالک کے مقابلے میں تیزی سے آگے بڑھ رہاہے اورپاکستان جو گزشتہ سال کرپشن میں 47نمبر پرتھامگر خدشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ ممکن ہے کہ اگر پاکستان میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے ناسور کاآپریشن بروقت نہ کیاگیاتو یہ پاکستان کرپشن میں47سے42نمبرپر بھی آسکتاہے رپورٹ میں اِس کی وجہ یہ بتاتے ہوئے کہاگیاہے کہ عالمی اداروں میں حکومت کے طرز حکمرانی اور کرپشن پر سخت ترین اظہار تشویش پایاجاتاہے ۔یہاں میراخیال یہ ہے کہ ویسے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو اپنی اِس(بدنام زمانہ ) کامیابی پر مایوس نہیں ہوناچاہئے کیونکہ اِسی بہانے دنیاکے سامنے ہمیں اپنی پہچان کرانے کا ایک اچھاموقع ہاتھ آیاہے ہمیں یہ سوچ کر خاموش رہناچاہئے اور موجودہ حکومت کو اِس کی مدت پوری کرنے کا موقع دنیاچاہے کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا چلواِس بہانے دنیا ہمیںجان تو جائے گی کہ پاکستان دنیاکا وہ ملک ہے جو شائد کسی اور حوالے سے تو نہ صحیح مگر کرپشن کے میدان میں تو ترقی کرہی رہاہے تو اِسے کرنے دیاجائے۔اور اِس کے ساتھ ہی یہ ریت بھی ازل سے چلی آرہی ہے کہ ہردور میںآنے والے انسانوں کی ایک بڑی تعداداپنے کارناموں کے باعث مشہور ہوئی اور اِسی طرح دنیا میں مختلف ادوار میں جتنی بھی قومیں آتی رہی ہیں وہ بھی اپنی کسی نہ کسی منفرد خصوصیات اور خامیوں کی وجہ سے جن میں اِن کی اچھائیاں اور بُرائیاں دونوں ہی شامل ہیںوہ تاریخ کا حصہ بنیں اور آج اِس 21ویں صدی کے جدید سائنسی دورمیں بھی یہی روایت قائم ہے کیونکہ آج کے اِس دور میں بھی دنیاکے کئی انسان اور قومیں ایسی ہی جو اپنی پہچان آپ ہیں اِن میں کچھ ایسے انسان بھی ہیں جنہوں نے اپنی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے باعث دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی پہچان کرائی اور کچھ انسان ایسے بھی ہیں جن کے منفی کارنامے عالمِ انسانیت کے لئے کلنگ کا ٹیکہ ثابت ہوئے ہیں اور اِسی طرح کچھ اقوام بھی دنیا کی تاریخ میں ایسی گزری ہیں اور آج بھی موجود ہیں کہ جن کے مثبت اور منفی کارناموں سے انسانی تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیںجن کے کارناموں سے آج بھی بنی نوع انسان سبق اور عبرت حاصل کررہے ہیں اِن ہی میںسے ایک پاکستانی قوم بھی ہے جو کرپشن کے حوالے سے جہاںدنیابھر میں شہرت حاصل کررہی ہے تو وہیں اِس کا یہ فعل پاکستانیوں سمیت ساری دنیا کے لئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔مگرشائد اِن ساری باتوںاور برائیوں کے باوجود بھی ہمارے حکمران اَب بھی اِس ذلت اور رسوائی سے بچنے اور اِس سے کوئی عبرت نہیںپکڑپائے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی جیسی تنظیمیں جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتی ہیںوزیراعظم کے اِس بیان سے یوں لگتاہے کہ وہ 47سے42اورپھر نمبر ون بننے کی دوڑ میںلگے رہیںگے۔تواِس پر ہم بس اتنا کہیں گے کہ ” فکر نہ کر اور ذکر نہ کر……“جوہم کررہے ہیں ہمیںکرنے دیاجائے باقی سب ٹھیک ہے ورنہ….ورنہ سب غلط ہے ۔(ختم شد)

خصوصی کالم: تمثیلِ سیاست          بدنام ہوںگے توکیا…..؟؟نام نہ ہوگا……. پاکستان دنیاکا بدعنوان ملک بننے کی دوڑمیں 47سے42نمبرپرآگیا…..بولو …کیسا…..؟؟؟محمداعظم عظیم اعظم[email protected]اُف زوالِ وطن کا یہ آغاز  اُف کمالِ وطن کا یہ انجام!     آہ ! یہ ملکُ ! آہ یہ ملت  آہ یہ قوم ! آہ یہ اِسلامیہاں مجھے اِس شعر کی تشریح بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بس مجھے یہ شعر یادآگیاتو میں نے لکھ دیااَب اِسے پڑھنے والے خود سمجھیں اور اِس کی تشریخ اپنی اپنی عقل اور سمجھ دانی کے مطابق خودکریں اور یہ فیصلہ کریں کے اَب ہم کو اپنے وطن کے لئے ایساکیاکچھ اچھاکرناہے کہ ہماراملک بھی عظمتوں کے مینار سے بھی زیادہ بلندہوجائے۔اورہم ذلت و رسوائی کی اِس دلدل سے نکل کراپنا کل بہتربناسکیں جس پر ہماری آنے والی نسلوں کو بھی فخر ہواور وہ اپنے پرکھوں پر بھی نازکرسکیں ..اوراَب یہ سوچنے اور سمجھنے کا کام ہم سب کاہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہمیں دنیامیں اپنا وقار مجروح ہونے سے بچانے کے لئے کیاکیاجتن کرنے ہوں گے……؟؟کہ ہماراکھویاہواوقار بحال ہوسکے۔بہر حال مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ آج میں جس وطن کا باشندہ ہوں وہ ساری دنیا میںاپنے نام اور معنی کے لحاظ سے ایک پاک اور عظیم ترین ملک کی حیثیت سے اپنی سب سے منفرد اور جُدا پہچان ضروررکھاتا ہے مگربدقسمتی سے اِس وطن عزیز جِسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے اِس پر گزشتہ 62سالوں میںجتنے حکمران آتے رہے ہیںسب اِس کا وجود گدکے مانندنوچتے رہے اور جس کا جہاں سے جتنابھی بس چلاسب سیاہ سفیدکرکے قومی خزانے سے لوٹ مارکرتے رہے اور اپنا اپناپیٹ بھرکرچلتے بنے اور آج بھی اِس سرزمینِ پاکستان پر ایسے ہی حکمرانوں کا راج ہے جو ایک لاٹھی سے سب کو ہانک رہے ہیں اِن کی نظر میں ہاتھی گھوڑااور سیاہ سفید سب برابر ہیںاور یہ وہ حکمران ہیں جوا پنی اصلاح سے متعلق کسی کا ایک لفظ بھی سُننے کو تیار نہیں ہیں گوکہ اِن کے نزدیک اگر کوئی اچھاہے تووہ اِن کا لایاہواوہ مفروضہ اور قانون جسے یہ اپنے لئے بہتر سمجھتے ہیں وہ ہی اِن کے لئے کارآمدہے اور باقی سب کچھ غلط ہے۔شائد ہمارے موجودہ حکمرانوں کے اِسی روئے کے باعث گزشتہ دنوںٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے پاکستان میں بڑھتے ہوئے کرپشن کے حوالے سے ایک سنگین نوعیت کی چارج شیٹ جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ بتایاگیاہے کہ روان سال 2010کے دوران کرپشن کا ناسور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے جس کا تدارک کیاجانابہت ضروری ہے ورنہ اِس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمدہوں گے اوراِس کے ساتھ ہی اِس چارج شیٹ میں اِس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی کی ایلفی لگی جوڑی نے ملک میں کرپشن کو گزشتہ سال 2009کے مقابلے میںآسمان کی بلندیوں تک پہنچادیاہے جو ایک عام پاکستانی سمیت عالمی ادادورں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی آپس کی لیپاپوتی اور ایک دوسرے کو تھپکی دینے اور اپنا حکومتی وقت گھسیٹنے جیسے عمل کے باعث جہاں ملک میں عوام کو موجودہ حکمرانوں سے مایوسی ہوئی ہے تو وہیں اِن حکمرانوں کی ناقص حکمتِ عملیوں اور فرسودہ منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک میں کرپشن کے کلچرل کو بھی فروغ حاصل ہواہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک میں کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور پاکستانی قوم اِن حکمرانوںکے اِس فعل شنیع کی وجہ سے دنیاکی کرپٹ ترین قوموںاور ممالک کے مقابلے میں تیزی سے آگے بڑھ رہاہے اورپاکستان جو گزشتہ سال کرپشن میں 47نمبر پرتھامگر خدشہ ظاہر کیاجارہاہے کہ ممکن ہے کہ اگر پاکستان میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے ناسور کاآپریشن بروقت نہ کیاگیاتو یہ پاکستان کرپشن میں47سے42نمبرپر بھی آسکتاہے رپورٹ میں اِس کی وجہ یہ بتاتے ہوئے کہاگیاہے کہ عالمی اداروں میں حکومت کے طرز حکمرانی اور کرپشن پر سخت ترین اظہار تشویش پایاجاتاہے ۔یہاں میراخیال یہ ہے کہ ویسے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو اپنی اِس(بدنام زمانہ ) کامیابی پر مایوس نہیں ہوناچاہئے کیونکہ اِسی بہانے دنیاکے سامنے ہمیں اپنی پہچان کرانے کا ایک اچھاموقع ہاتھ آیاہے ہمیں یہ سوچ کر خاموش رہناچاہئے اور موجودہ حکومت کو اِس کی مدت پوری کرنے کا موقع دنیاچاہے کہ بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا چلواِس بہانے دنیا ہمیںجان تو جائے گی کہ پاکستان دنیاکا وہ ملک ہے جو شائد کسی اور حوالے سے تو نہ صحیح مگر کرپشن کے میدان میں تو ترقی کرہی رہاہے تو اِسے کرنے دیاجائے۔اور اِس کے ساتھ ہی یہ ریت بھی ازل سے چلی آرہی ہے کہ ہردور میںآنے والے انسانوں کی ایک بڑی تعداداپنے کارناموں کے باعث مشہور ہوئی اور اِسی طرح دنیا میں مختلف ادوار میں جتنی بھی قومیں آتی رہی ہیں وہ بھی اپنی کسی نہ کسی منفرد خصوصیات اور خامیوں کی وجہ سے جن میں اِن کی اچھائیاں اور بُرائیاں دونوں ہی شامل ہیںوہ تاریخ کا حصہ بنیں اور آج اِس 21ویں صدی کے جدید سائنسی دورمیں بھی یہی روایت قائم ہے کیونکہ آج کے اِس دور میں بھی دنیاکے کئی انسان اور قومیں ایسی ہی جو اپنی پہچان آپ ہیں اِن میں کچھ ایسے انسان بھی ہیں جنہوں نے اپنی مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کے باعث دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی پہچان کرائی اور کچھ انسان ایسے بھی ہیں جن کے منفی کارنامے عالمِ انسانیت کے لئے کلنگ کا ٹیکہ ثابت ہوئے ہیں اور اِسی طرح کچھ اقوام بھی دنیا کی تاریخ میں ایسی گزری ہیں اور آج بھی موجود ہیں کہ جن کے مثبت اور منفی کارناموں سے انسانی تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیںجن کے کارناموں سے آج بھی بنی نوع انسان سبق اور عبرت حاصل کررہے ہیں اِن ہی میںسے ایک پاکستانی قوم بھی ہے جو کرپشن کے حوالے سے جہاںدنیابھر میں شہرت حاصل کررہی ہے تو وہیں اِس کا یہ فعل پاکستانیوں سمیت ساری دنیا کے لئے بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔مگرشائد اِن ساری باتوںاور برائیوں کے باوجود بھی ہمارے حکمران اَب بھی اِس ذلت اور رسوائی سے بچنے اور اِس سے کوئی عبرت نہیںپکڑپائے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی جیسی تنظیمیں جمہوریت کو پٹری سے اتارنا چاہتی ہیںوزیراعظم کے اِس بیان سے یوں لگتاہے کہ وہ 47سے42اورپھر نمبر ون بننے کی دوڑ میںلگے رہیںگے۔تواِس پر ہم بس اتنا کہیں گے کہ ” فکر نہ کر اور ذکر نہ کر……“جوہم کررہے ہیں ہمیںکرنے دیاجائے باقی سب ٹھیک ہے ورنہ….ورنہ سب غلط ہے ۔(ختم شد)