URDUSKY || NETWORK

انسدادِ منشیات کیا ،کیوں اور کیسے؟

144

انسدادِ منشیات کیا ،کیوں اور کیسے؟

تحریر : قمرالدین ۔لاہور
26جون ہر سال ” عالمی یومِ انسدادِ منشیات” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے عوام اور منشیات کے انسداد کے لیے سرگرم سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیںاس دن منشیات کے خاتمے کا بھر پور عزم کرتی ہیں ۔ سیمینارز، ورکشاپس اور واکز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاکہ عوام میں یہ جذبہ بیدار ہو سکے کہ ہم نے اپنی نسلوں کو محفوظ مستقبل دینے کے لیے اس معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، اس کے اسباب و علامات کو سمجھنا ہے تاکہ اس شیطانی ہتھیار کو کند کیا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ کا ذیلی ادارہ UNODC(اقوامِ متحدہ کا آفس برائے منشیات و جرائم) ہر سال 26جون کو ایک سلوگن مہیا کرتا ہے تاکہ دنیا بھر کی سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیںعوام کی آگہی کے لئے اس سلوگن کے تحت پروگرام تیار کریں ۔2010 کے لئے سلوگن ہے THINK HEALTH NOT DRUGS "صحت بارے سوچئے منشیات بارے نہیں یعنی اپنی فکر اور خیالات کا رخ صحت اور صحتمندانہ سرگرمیوں کی طرف موڑیئے نہ کہ صحت برباد کرنے والی لعنت منشیات کی طرف . اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے بجا طور پر درست تشخیص کی ہے درحقیقت ہماری قوم کے معمار نوجوان نسل TEEN AGERS ہی منشیات فروشوںکاسب سے بڑا ٹارگٹ ہیںاگر نوجوان نسل ہی اس لت میں پڑگئی توکہاں سے لائیں گے ہم ایسے انجنیئرز ، ڈاکٹرز، وکلائ، سائنسدان، صنعتکار اور تاجر جووطن ِ عزیز کوترقی کی راہ پر گامزن کریں اور مشکل حالات میںوطن کو بحرانوں سے نکالیں ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت وطنِ عزیز میں مختلف قسم کے نشہ کرنے والوں کی تعداد50لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے جس سے نمٹنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
موقع کی مناسبت سے یہ بہتر بات ہے کہ اس مسئلہ پر ایک دوسرے سے معلومات شیئر کی جائیںتاکہ ہمارے ارد گرد کے لوگوں کو آگاہی اور شعور حاصل ہو سکے۔
چونکہ منشیات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے لہٰذا یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔اس جہاد میں ہمارا انفرادی واجتماعی لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے”THINK GLOBALLY, ACT LOCALLY” آ ئیے اس کی علامات، اسباب اور روک تھام کے بارے میں ایک جائزہ لیتے ہیں۔
کیا ؟ ہر وہ چیز یا SUBSTANCEجو انسان کے ذہن پر پردہ ڈال دے جس سے اس کی دماغی صلاحیتیں اور جسمانی قوتیں تباہ ہو جائیںنشہ کہلاتا ہے۔ پھر اس کی خواہش اس چیز میں بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس سے پیچھا چھڑوانا مشکل ہو جاتا ہے۔
نشہ کی بنیادی اقسام (1 افیون سے بنائی جانے والی اشیائ۔ہیروئن کی خباثت بھی اسی سے تعلق رکھتی ہے(2 برانگیختہ کرنے والی اشیاءمثلاً شراب اور کوکین (3 تصورات اور خوابوں میں لے جانے والی اشیاءجیسے بھنگ اور چرس (4 خواب آور ادویات یعنی (TRAQUILIZERS)وغیرہ ہیں۔
نشہ کے نقصانات و خطرات: (فرد کے لئے)ایک فرد جو کہ ایک معاشرے کی اکائی ہے لہٰذا اس کی تباہی پورے معاشرے کی تباہی ہے۔نشہ کا عادی خاص طور پر ہیروئن کا عادی جو ایک خطرناک زہر ہے اس سے دماغ ماﺅف اور جسم تباہ ہو تا چلا جاتا ہے۔ اسے جاری رکھنے پربالآخر وہ چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے اورموت کی تاریک وادی کاراہی ہو جاتا ہے۔اس کی امنگیں بتدریج ختم ہو جاتی ہیں نہ اسے اپنی خبر رہتی ہے نہ دنیا نہ آخرت کی۔بس وہ ہیروئن کا طلبگار اور غلام بن کر معذور زندگی گزارتا ہے۔رنگ زرد پڑ جاتا ہے،جِلدی بیماریاںپھوڑے پھنسیاں نکل آتے ہیں، قوتِ مدافعت جواب دے جاتی ہے اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔سٹوڈنٹ ہو تو تعلیم ادھوری، ملازم ہو نوکری سے جواب اور معاشی حالات دگرگوں ہو جاتے ہیں۔
(خاندان کے لئے)سارا خاندان اجڑ جاتا ہے۔ والدین نے اپنے بچوں کے جس روشن مستقبل کے خواب دیکھے ہوتے ہیں بُری طرح بکھر جاتے ہیں۔بہنیں ایک نشئی بھائی کی بہنیں کہلاتی ہیں جن کے رشتے ہونے میں یہ بھائی بہت بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔بیوی بچے لاوارث اور بے رحم معاشرے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ غرض اس لعنت میں ایک فرد کے گرفتار ہونے سے خاندان کا شیرازہ بری طرح بکھر جاتا ہے۔
(معاشرے کے لئے)منشیات سے تباہی کے باعث پوری سوسائٹی میں قابل اور حوصلہ مند افراد کا شدید فقدان ہو جاتا ہے جس سے معاشرہ ان جوانوں سے محروم ہو جاتا ہے جو بُحرانوں سے نمٹ کر اپنی قوم کو بچالیتے ہیں۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں مختلف منشیات اور سگریٹ نوشی پر تباہ ہونے والی دولت ہمارے صحت اور تعلیم کے قومی بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔
کیوں؟ نشہ آور اشیاءکے استعمال کے کئی اسباب ہیں
﴿بے مقصد زندگی، کسی منزل کا تعین نہ کرنا، اس کے لئے ٹارگٹ مقرر نہ کرنا اور خدا کی یادسے اطمینان حاصل کرنے کی بجائے عارضی سہاروں میں سکون تلاش کرنا
﴿مختلف نفسیاتی عوامل مثلاً غم، مایوسی، پریشانی، ناکامی اور اکتاہت وغیرہ
﴿غربت اور امارت۔ امیر لوگ نشاطِ طبع(JUST FOR FUN)جبکہ غریب غمِ دوراں کو بھلانے کے لئے نشہ کی لت میں گرفتار ہو جاتے ہیں﴿بے روزگاری اور اس سے پیدا ہونے والا انتشار﴿فارغ اوقات میں صحتمندانہ مشاغل اور سپورٹس کا دستیاب نہ ہونا ﴿والدین اور اساتذہ کی عدم توجہی و دیکھ بھال ﴿معاشرتی مسائل مثلاً مہنگائی ،ازدواجی جھگڑے ، ،طلاق۔آپس میں ناچاقی وغیرہ
﴿بری صحبت اور سوشل پریشریادوستوں کا(PEER PRESSURE)﴿ والدین اور اساتذہ کی طرف سے آگاہی کی کمی کیوجہ سے نشہ آور اشیاءبارے کم عمری کی لا علمی اور تجسس کہ اگر پی لوں تو ہوتا کیا ہے﴿سگریٹ نوشی ﴿سگریٹ نوشی بارے گمراہ کن اور خوشنما اشتہار بازی
کیسے؟منشیات کے خلاف جہاد کو کامیاب بنانے کے لئے ہمیں ہر حربہ آزمانا چاہیئے کیونکہ اس کو رواج دینے ، پھیلانے اورمستقل بنیادوںپر جاری رکھنے والے اکثر اوقات اتنی قوت دکھاتے ہیں کہ بڑی بڑی حکومتیں ان کا سامنے بے بس ہو جاتی ہیں لہٰذا طاقتور اور چالاک دشمن سے مقابلہ کے لئے ہمارے ترکش میں بھی اتنے ہی تیکھے تیر ہونا چاہئیں۔
منشیات کو لوگوں سے دور رکھا جائے۔ یعنی سپلائی کو ختم کیا جائے۔ اس مشکل کام کے لئے بہت سے وسائل کی ضرورت ہوتی لہٰذا یہ کام حکومتی سطح کے ادارے یعنی GOs مثلاًاینٹی نارکوٹکس فورس، کسٹمز،ایکسائز، آرمی، پولیس اور رینجرز کے ذمہ ہے۔یہ ادارے پوست کی کاشت کے خاتمے ،ہیروئن لیبارٹریوں کو تلف کرنے، منشیات کی ٹریفکنگ اور سمگلنگ کے قلع قمع کرنے اور اس گھناﺅنے کاروبار میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں دلوانے میں اپنی بھر پور کوششیں کر رہے ہیں۔خاص طور پر اینٹی نارکوٹکس فورس ایک طرف بڑی جرات کے ساتھ منشیات کے سمگلرزاور منشیات فروشوں کے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈال انہیں سزائیں دلوارہی ہے،اور ہر سال ہزاروں من ضبط کی گئی منشیات کو عوام کے سامنے لاکر تلف کر رہی ہے تو دوسری طرف NGOs کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے تخفیفِ طلب کے بہت سے پروگراموں کو چلا رہی ہے۔
لوگوں کو منشیات سے دور رکھا جائےیعنی ان کی مانگ اور طلب کو ختم کیا جائے۔یہ کام فلاحی ادارے یعنی NGOsکرتے ہیں۔لوگوں میں منشیات کے خطرات کی آگاہی کیسے پیدا کی جائے؟ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ خطرناک چیز سے بچتا ہے۔اسی لئے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔سانپ کی زہرناکیوںسے واقف ہے لہٰذااسے دیکھتے ہی مار ڈالنے کی کوشش کرتا ہے یا بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔۔ اسی طرح اگر لوگوںکو منشیات کے خطرات سے آگاہ کر کے یقین دلایا جائے کہ یہ زہریلی اشیاءان کو تباہ وبرباد کر کے مار ڈالیں گی تو وہ ان کے استعمال سے باز رہیں گے۔اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔فلاحی تنظیمیں ذرائع ابلاغ، ریڈیو ٹی وی، کیبل نیٹ ورک، انٹرنیٹ،پریس اشتہارات، ڈرامے، میٹنگ، سیمینار،پمفلٹ، سٹکرز اور پلے کارڈز وغیرہ جیسے طریقے اپنا کر لوگوں میں اجتماعی شعور بیدار کر سکتی ہیں۔
چونکہ زیادہ تر ہیروئن سگریٹ کے ذریعہ استعمال کی جاتی ہے اورتین سے سات سگریٹ پینے والا فوری طور پر اس کے چنگل میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ وہ مزہ یا سرورجو اسے وقتی طور پر پریشانیاںبھلانے میںمدد کرتا ہے پھر اس سراب کی تلاش میں وہ اس کا عادی بن جاتا ہے اور آخر کا زندگی وآخرت تباہ کر لیتا ہے۔اس لئے سگریٹ نوشی کے خلاف بھر پور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
کون؟ماہرین کے مطابق بیس سے پینتیس سال کی عمر کے دوران لوگ زیادہ تر نشے کی لت میں گرفتار ہوتے ہیں۔ان میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ سبھی شامل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ڈرائیور حضرات، مزدور، ریڑھی بان اور طلباءکی بڑی تعداد اس لعنت کا شکار ہو رہی ہے۔ہمیں اپنے ارد گردمندرجہ ذیل ٹارگٹ گروپس پر نظر رکھنی چاہئے جو منشیات فروشوں کی ہِٹ لسٹ پر ہیں۔
ایک وہ ہیں جو اس لعنت میں گرفتارہو چکے ہیں۔ ان کی اس عادت سے نفرت کریں مگر ان کو پیار اور حکمت سے اس کے نقصانات سے آگاہ کریں۔ان کی شخصیت کے اچھے پہلواجاگر کریں اور پاکیزہ زندگی کی طرف مائل کریں۔ان کا علاج معالجہ کروائیں اور صحتمندانہ مشاغل میں مصروف رکھیں ۔
دوسرے وہ ہیں جوپریشانیوں سے فرار کے متلاشی ہیںاور نشے کی آفرقبول کرنے کوہیںیا اس کے لئے دوستوں کا دباﺅ ہے۔ انہیںہمت اور ولولے کے ساتھ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیں۔دین کی پاکیزگیوں سے آگاہ کریںصبر اور شکرکی فضیلتوں اور فوائد سے آگاہ کریں۔ ان کی کی ہر ممکن مدد کریں اور بے شمار اجروثواب کے مستحق بن جائیں۔
تیسرے وہ لوگ جو نشہ نہیں کرتے مگر اس کے نقصانات سے آگاہ بھی نہیں یہ لوگ بھی ہماری توجہ کے اتنے ہی متقاضی ہیں جیسے پہلے دو گروپ کہ اس مضمون یا دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات ان تک پہنچائی جائیںتاکہ اس قبیح عادت سے ان کی نفرت اور بھی مضبوط ہو جائے اور آگاہی و شعور بیدار کرنے کی کوششوں میں ہمارا ساتھ دے سکیں۔
اس لعنت پر قابوپانے میں اساتذہ اور والدین کا کردار سب سے اہم ہے لہٰذا انہیں نشہ کی لت میں گرفتارہونے کی ابتدائی علامات کا علم ہونا چاہیے تاکہ اگر کوئی ہمارا پیارا اس عادت میںمبتلا ہو تو اس کا بر وقت تدارک اور علاج کیا جا سکے۔
ہیروئن کے نشہ کی ابتدائی علامات٭وزن کم ہونا شروع ہو جاتا ہے٭رنگت زرد ہونے لگتی ہے٭مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے٭دوستوں کے ساتھ مل کر نشہ کرنے کی وجہ سے رات
دیر سے گھر آتا ہے ٭گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھ کرکھانا کھانے سے کتراتا ہے ٭لباس، بالوں اور جوتے کی صفائی پر توجہ نہیں دیتا ہے٭چھپ کر نشہ کرنے کے لیے باتھ روم میں زیادہ وقت گزارتا ہے٭سکول کالج یا ملازمت سے اکثر غیرحاضررہتا ہے ٭گھر سے مختلف اشیاءکا غائب ہوناجنہیں چرا کر وہ نشہ کے اخراجات پورے کر لے
اسلام میں منشیات کو حرام قرار دیا گیا ہے اور اسے شیطان کے ناپاک اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس کے خلاف کوشش وجہاد کرناعین عبادت ہے۔یاد رکھیں NOBODY IS SAFE UNLESS VEVERYBODY IS SAFE FROM DRUGS جب تک منشیات سے ہر کوئی محفوظ نہیں تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں.
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بالخصوص نوجوانوں کو صحتمندانہ سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے ان کے لئے کھیلوں کا انتظام وافر ہونا چاہئے تاکہ وہ اس قبیح عادت کو نہ اپنا سکیں۔اکیلی حکومت کچھ نہیں کر سکتی دردمند افراد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔