امریکاکو الفاظ نہیں…اَب پاکستان سے ایکشن چاہئے
کیاامریکاخطے میں بھارتی بالادستی قائم کرکے اِس کی چوہدراہٹ چاہتاہے…..؟؟؟
پاکستان کا کیامقام ہوگا……؟؟
محمداعظم عظیم اعظم
صدر زرداری، وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور آرمی چیف جنرل کیانی سے امریکی سینیٹرجان کیری کی ملاقات کے بعد ایوان صدر سے جو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیااِس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ جان کیری کے پاکستان آتے ہی ہمارے حکمرانوں پر چڑھنے والاوہ امریکی غم و غصہ جو دومئی کے سانحہ کے بعد اِن کے دل ودماغ سے نہیں اُتررہاتھا وہ ترنت اُتر گیااوریوں پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے جو برف جم گئی وہ بھی پلک جھپکتے ہی پگھل گئی جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جان کیری کی پاکستان آمد سے چندروز قبل تک بسااوقات ایسامحسوس ہوتاتھا کہ جیسے اَب یہ برف جو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے کسی گلیشر کی صُورت اختیار کرکئی ہے یہ کبھی بھی نہیں پگھل سکے گی اور عوام میں بھی یہ حوصلہ پیداہوگیاتھا کہ اَب ہماراملک امریکا کے سامنے ہاتھ پھیلاپھیلاکر بھیک مانگنے اور طرح طرح کی امدادلینے سمیت مختلف حیلے بہانوں سے سودکے ساتھ قرضے لینے سے بھی اجتناب برتے گا اور ہمارے حکمران اپناسینہ چوڑاکرکے اور اپنی گردنیں تان کر اپنے ساڑھے سترہ کروڑ عوام سے یہ مطالبہ کریں گے کہ اَب ہم نے امریکی امداد اور قرضوں پر انحصار کرنا چھوڑدیاہے اور ہمارے عوام بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر یہ عہدکریں گے یہ بھی اپنے ملک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ۔
مگر چندہی دنوں بعد ملک کے عوام نے یہ خود دیکھ لیاکہ دومئی کے سانحہ پر ہمارے حکمرانوں کا امریکا پر غم و غصہ محض دکھاوا تھا اِس کا احساس عوام کواُس وقت ہواجب بند کمرہ بریفنگ کے موقع پرپارلیمنٹ سے متفقہ طورپر پاس ہونے والی ایک تاریخ ساز قرار داد پڑھتے ہوئے ہمارے وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے فرمایاتھا کہ ”آج جب میں یہ قرارداد پڑھ رہاہوں تو تاریخ بدل رہی ہے“ اِس لئے کہ یہ ہماری 63سالہ تاریخ میں پیش کی جانے والی اپنی نوعیت کے سب سے منفرد اور افضل واعلی قراردار اِس لئے ہے کہ اِس قرار داد کو مرتب کرنے میں اراکین پارلیمنٹ اور عسکری قیادت نے بھی حصہ لیاہے مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ اَبھی اِس قرار داد کی سیاہی خشک بھی نہ ہونے پائی تھی کہ امریکی انتظامیہ کو ایک ایسا تجسُس پیداہواکہ جیسے اِس قرارداد پر پاکستانیوں نے حقیقی معنوں میں عمل کرلیا تو پھر سمجھوکہ پاکستان ہمارے ہاتھ سے گیااور ہم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کی آڑمیں پاکستان پر اپنا قدم جمانے کا جو منصوبہ بنارہے ہیں اِس میں ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا بڑے گا اور پھر یہ ہواجس کی امریکا سمیت شائد دنیاکو بھی توقع نہ تھی کہ ایسا بھی ہوسکتاہے اور پھر وہ ہوگیا جس پر آج امریکابہت خوش ہے ۔
کیوں کہ امریکیوں کے نزدیک بھلا ہو مسٹر جان کیری کا جوافغانستان سے اپنے دورے کے بعد جیسے ہی پاکستان آئے اور اُنہوں نے آتے ہی پاکستانی صدرزرادی، وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اور آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقات اور اِس ملاقات میں اُنہوں نے سانحہ دومئی کے بعد پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے پیداہونے والی نازک صُورت حال کو کم کرنے اور اِنہیں معمول پر لانے کے لئے ا مریکی انتظامیہ کا موقف کچھ یوں پیش کیا کہ پاکستانی حکمران جو پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے پہلے ہی مصالحتوں کے شکار رہتے ہیں یہ ایک بار پھر کسی مصالحت کا شکار ہوکرجان کیری کی پٹائی (بہکاوئے)میں ایسے آگئے کہ اِنہوں نے ایوان صدر سے ایک لمحہ بھی ضیائع کئے بغیرایک ایسا تاریخ ساز اور مصالحتوں سے بھر پور دھواں دار مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا جس کے جاری ہونے سے آج امریکی انتظامیہ خوش ہے اور یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان کومنانے کا ساراکریڈٹ سینیٹرجان کیری کوجاتاہے جنہوں نے ایک خاص قسم کی امریکی ڈپلومیسی سے ناراض پاکستانیوں کو منالیا یو ں ایک ایسا پاک امریکا مشترکہ اعلامیہ جاری کردیاجس سے یہ ا نداز بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اِس میں جس انداز سے زبان استعمال کی گئی ہے اور جیسے جملے پروئے گئے ہیں و ہ واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ ظاہر کررہے ہیں کہ جیسے یہ پاکستانی حکمرانوں کی دلی خواہش رہی ہو کہ کوئی موقع اِن کے ہاتھ دوبارہ لگے تو وہ ناراض امریکا کو منانے کے لئے کچھ ایسا کریں جیساکہ اِنہوں نے اِس اعلامئے میں کردکھایاہے ۔
اور آج امریکا یہ بات اچھی طرح سے سمجھتاہے کہ ایوانِ صدر سے جاری ہونے والے پاک امریکا مشترکہ اعلامئے میں جس طر ح کہاگیاہے کہ پاکستان میں آئندہ کسی بھی اہم ہد ف کے خلاف دونوں ممالک مل کر کارروائی کریں گے ،دہشت گردوں کے خلاف تعاون جاری رہے گا، پاکستان اور امریکا کے مابین تمام رابطوں کا نئے سرے سے جائزہ لیاجائے گااور بہت سے ایسے اہم نکات بھی شامل ہیں جنہیں یہاں بیان کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔
مگر ہمارے قارئین یہاں یہ ضرورسمجھے لیں کے پاک امریکا مشترکہ اعلامئے سے پاکستان سانحہ دومئی کے بعد اپنے اُس مقصد میں ضرورکامیاب ہوگیاہے جو صرف یہ تھا کہ امریکا نے دومئی کے واقع کی اِسے پیشگی اطلاع کیوں نہیں دی جبکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ایک بڑااتحادی بھی ہے اور اَب تک ہر لحاظ سے امریکاسمیت اِس کے دوسری اتحادیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہر قسم کی قربانیاں بھی دے چکاہے اِس کے باوجود بھی امریکی انتظامیہ اور امریکی فورسز نے جب دومئی کا آپریشن کیا تو پاکستان کی اِ س کی کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی اوریوں اِس طرح پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے
ہوئے وہ سب کچھ کردیاجس سے نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میںبھی پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے حوالے سے انگنت سوالات نے جنم لیاہے جس سے ایک طرف تو دنیابھر میں پاکستان کے کردار کی جگ ہنسائی ہوئی ہے تو وہیں امریکانے اپنے سب سے بڑے اتحادی پاکستان کا کردار بھی ساری دنیا میں مشکوک بنادیااور یہ بھی ثابت کردیاہے کہ پاکستان ہمارااتحادی ضرور ہے مگر ہمیں اِس کے کردار پر شک ہے۔
بہرکیف!اِس ہی مشترکہ اعلامیے میں صدر زرداری کے اُس عزم وہمت اور حوصلے کا بھی پُرتباگ انداز سے تذکرہ کیاگیاہے جس میں اُنہوں نے امریکا سمیت ساری دنیا کو مخاطب کرکے کہاہے کہ ”دہشت گردی کے
خاتمے اور دنیا میں قیام امن کے لئے پاکستان دنیاسے اپناتعاون جاری رکھے گا اِس پیغام میں صدرکا خصوصی طور پردنیا سے یہ کہنا بڑی اہمیت کا حامل ہے ”تاہم اَب تک پاکستانی عوام نے دہشت گردی کے خاتمے اور
دنیامیں قیام امن کے لئے اَب تک اربوں ڈالر اور 38ہزار انسانی جانوںکی جو قربانی دی ہے اور آئندہ بھی دیں گے اِس لحاظ سے دنیااِن کی عزت ووقارکو ترجیح دے اور پاکستان کی خودمختاری کا احترام کرے“ اِس کے ساتھ ہی مجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ امریکاکے نزدیک صدر زرداری کے کہے کی کوئی اہمیت نہیں کیوںکہ امریکایہ بات اچھی طرح سے جانتابھی ہے اور خوب سمجھتابھی ہے کہ پاکستانیوں کا غم وغصہ تھوڑی دیر کا ہوتاہے یعنی صرف اُس وقت تک جب تک امریکا اِنہیں امداد، قرض یا بھیک کی شکل میں کچھ دینے کااِن سے وعدہ نہیں کرلیتا…. پاکستانی حالات غم و غصے میں رہتے ہیںا ورجیسے ہی امریکا نے اِن سے کچھ دینے کا وعدہ کیا بس سمجھوکہ پاکستانی حکمرانوں اور عوام کی امریکا سے ناراضگی ختم اور غصہ بھی غائب ہوجاتاہے اور ایساہی کچھ جان کیری کی پاکستان آمد پر بھی ہواگا یقیناجس کے ثمرات آنے والے دنوں میں سامنے آنے شروع ہوجائیں گے اور پاکستانی عوام سمیت ساری دنیا کو بھی پتہ چل جائے گاکہ جان کیری کی پاکستان آمد کے کیا مقاصد تھے اور اِس سے پاکستان کو کیاکیا فوائد حاصل ہوئے اور امریکا کو کیا ملا….؟؟
اگرچہ اِس کے ساتھ ہی اَب کوئی اِس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلاسکتاہے کہ پاکستان نے امریکی سینیٹر جان کیری کی جانب سے امریکا کی اُس دھمکی نماپیشکش جس میں واضح اور دوٹوک الفاظ میںاُنہوں نے کہاتھاکہ کوئی اِس گمان یا خوش فہمی میں نہ رہے کہ میں دومئی کے سانحہ پر معافی مانگنے آیاہوں بلکہ میں تو اِس لئے آیاہوں کہ میں یہ بات صاف اور واضح طورپر پاکستان سے یہ کہہ سکوں کہ امریکامیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے اور امریکا بالخصوص یہ چاہتاہے کہ خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے جس قدر جلد ممکن ہوسکے پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام میں مزیدپیش رفت کوروکے ….تاہم جان کیری نے یہ بھی کہاکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے ”امریکا کو الفاظ نہیں بلکہ اَب پاکستان سے ایکشن چاہئے“ اور پھر چند ہی روزبعدامریکا سمیت ساری دنیانے یہ بھی دیکھ لیاکہ پاکستان نے اِس دھمکی نما امریکی پیشکش پر لبیک کہااور اکیلے ہی کارروائی کرتے ہوئے القاعدہ کے ا ہم رہنمامحمدعلی قاسم یعقوب عرف ابوصہیب المکی کو کراچی سے گرفتارکیااوریہ ثابت کردیاکہ اگرامریکا پاکستان پر مکمل اعتماد کرے تو پاکستان وہ سب کچھ کرسکتاہے جس کا امریکا سوچ بھی نہیں سکتامگر پھر بھی پاکستان کے حکمران اور عوام اِس افسوس اور دکھ سے آج تک نہیں نکل سکے ہیں کہ امریکا نے دومئی کو ایبٹ آباد کے واقع کے حوالے سے پاکستان کو اعتماد میں نہ لے کر ایک بڑی غلطی کی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کے کردار پر دنیابھر میںشک کاسلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ پاکستان ایسانہیں ہے جس سے متعلق امریکی انتظامیہ اور امریکی میڈیا نے اپنی منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کررکھی ہے ۔ جس کی بازگشت سانحہ دومئی کے بعد یہ بعد بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ امریکی انتظامیہ اور امریکی میڈیاکی جانب سے پاکستان کی کردار کشی کا یہ مطلب ہے کہ پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والا ایک بڑاملک قرار دلواکر اِس کی ترقی اور خوشحالی کی راہ روکی جائے اور اِسے دنیا کی ایک خطر ناک ترین ریاست کے روپ میں پیش کرکے نیٹو افواج کے ہاتھوں اِس کا کنٹرول دے دیاجائے یاپھرکچھ کا خیال یہ ہے کہ امریکا کا پاکستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے جس کا افغانستان ایک بہانہ ہے اوریاپھراگرامریکاایسانہیں کرسکاتو اِس حوالے سے امریکا یہ چاہتاہے کہ یہ اپنے سے زیادہ افغانستان میں بھارتی مفادات کو عزیز جانے اوراِس طرح یہ پاکستان پر آہستہ آہستہ اپنا دباو کم کرتے ہوئے بھارت کا اثرورسوخ اِس پر بڑھاکر اِسے بھارت کے طابع کردے اور اِس طرح خطے میں بھارتی چوہدراہٹ اور بالادستی قائم ہوجائے بالفرض اگر امریکا اپنے اِس منصوبے میں کامیاب ہوجاتاہے تو سمجھو پاکستان کاخطے میں کیامقام ہوگا …..؟؟