URDUSKY || NETWORK

اسامہ اور قومی سلامتی پر جنم لینے والے سوالات

138

پاکستان،امریکی  لشکرکی اصل منزل ۔ ۔ ۔ ۔

پاکستان امریکہ اصل ہدف اور مستقل پڑاؤ ۔ ۔ ۔ ۔

اسامہ کی شہادت اور قومی سلامتی پر جنم لینے والے سوالات

 

تحریر :۔ محمد احمد ترازی

[email protected]

 

قارئین محترم آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل ہم اپنے ایک مضمون”نائین الیون بہانہ،افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ “میں اِس اَمر کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ امریکہ کا اصل ہدف اور نشانہ پاکستان ہے،اسی طرح ہم اپنے پچھلے مضمون ”لیبیا نیا صلیبی میدان جنگ“میں واضح کرچکے ہیں کہ ” افغانستان اورعراق اکیسویں صدی کے امریکی چنگیزی لشکرکے ابتدائی پڑاؤ تھے،لیبیا بھی منزل نہیں،اصل منزل کچھ اور ہے،لیکن ایک بات طے ہے کہ اکیسویں صدی کے اِس خونی عفریت نے ابھی بہت سی شہہ رگوں کا خون پینا ہے اور بہت سی مسلم مملکتوں کو تباہ و برباد کرنا ہے ۔“آج پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں امریکہ کے ہائی ویلیو ٹارگیٹ اسامہ بن لادین کی شہادت کے بعد امریکہ چنگیزی لشکر کی اصل منزل نکھر کر سامنے آچکی ہے اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ظاہر کیے گئے تمام خدشات حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں ۔

 

اب اِس بات میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہا کہ امریکہ کا اصل ہدف،نشانہ،منزل اور مستقل پڑاؤ پاکستان ہے،گزشتہ دنوں وہائٹ ہاؤس کی جنگی ٹیم میں سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس،سیکرٹری دفاع کے عہدے پر سی آئی کے سابق ڈائریکٹر لیون پیناٹا اور ریان سی کروکر کی افغانستان میں نئے امریکی سفیر کی حیثیت سے تعیناتی اِس حقیقت کو مزید منکشف کرنے کیلئے کافی ہے،یہ تبدیلیاں ظاہرکرتی ہے کہ امریکی حکمت عملی یہی ہے کہ امریکہ افغانستان جنگ کوپاکستان منتقل کرنے اور پاکستان کا نیا امریکی میدان جنگ بنانے کی تیاری کرچکا ہے ۔

خوداِس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی حکومت کے ترجمان اخبار واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ” جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سی آئی اے کے سربراہ بن گئے تو نائن الیون کے بعد دو جنگیں لڑنے والا یہ جنرل اپنی تیسری جنگ پاکستان میں لڑے گا اور خطے میں سی آئی اے کو زیادہ سے زیادہ مسلح کرنا پیٹریاس کی اولین ترجیح ہوگی۔“امریکی اخبار نیویارک ٹائمز بھی کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتاہے کہ” پیٹریاس اپنی تیسری جنگ پاکستان میں لڑیں گے اورپیٹریاس براہ راست ڈرون آپریشنز کو کنٹرول کریں گے۔“خیال رہے کہ جنرل پیٹریاس ڈرون حملوں کے بڑے حامی ہیں اور ان حملوں میں تیزی کی بڑی وجہ بھی جنرل پیٹریاس ہی ہیں،دونوں امریکی اخبار یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پیٹریاس کی بطور سی آئی اے نامزدگی سے پاکستان میں اُن کے ہم منصب خوش نہیں ہیں اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل پیٹریاس کو سیاسی جرنیل کہتے ہیں،خیال رہے کہ یہ وہی جنرل پیٹریاس ہیں جو آئی ایس آئی پر کئی بار سنگین الزامات لگاچکے ہیں اور جنھیں امریکی صدر بارک اوباماامریکی قوم کا نمایاں ”اسٹراٹیجک مفکر“ قرار دیتے ہیں ۔

اسی طرح لیون پیناٹاکے نئے وزیر دفاع نامزد ہونے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی ایک رپورٹ اِس الزام کا پھر اعادہ کیا ہے کہ افغان طالبان کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں سے جو مدد مل رہی ہے وہ اتحادی افواج کی کاروائیوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے،چنانچہ اِس تناظر میں ہمارے ارباب اقتدار کو اِس قسم کی کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ جنرل پیٹریاس اور لیون پیناٹا کی نامزدگی معمول کی بات ہے،کیونکہ جن حالات میں پیٹریاس اور لیون پیناٹا کو نامزد کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہیں،اگر امریکہ کی نیت دونوں ممالک میں بڑھتی ہوئی سردمہری کو ختم کرنا اور پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانا ہوتی تو سی آئی اے کا سربراہ کسی ایسی شخصیت کونہ بنایا جاتا جو نہ صرف ڈرون حملوں کا زبردست حامی ہے بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی اچھے خیالات نہیں رکھتا،لہٰذا جنرل پیٹریاس،لیون پیناٹا اورریان سی کروکر کی تعیناتی پاکستان کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کی عکاس اور اُس کے مذموم عزائم کا واضح اظہار ہے ۔

چنانچہ اِن حالات میں اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ہلاکت جہاں پاکستان کے حوالے سے امریکی عزائم کیلئے آسانیاں فراہم کرتی ہے،وہیں اِس واقعہ نے پاکستان دشمن بھارت اورافغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی کے اِس واویلے کو بھی تقویت دیتی کہ پاکستان دہشت گرد گروپوں کی آماجگاہ اور جنت ہے،ایبٹ آباد کے نیم فوجی علاقے میں پیش آنے والے اِس واقعہ نے پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بھی بہت سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے،عوام حیران وششدر ہیں کہ امریکی فوجی آپریشن پاکستان کی فوج،ایجنسیوں اور حکومت کی لاعلمی اور رضا مندی کے بغیرکیسے ممکن ہو ا،کیسے امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں اِس حساس علاقے میں داخل ہوئے جہاں سے کاکول کی فوجی اکیڈمی بمشکل ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اورجہاں کئی فوجی تنصیبات سمیت فرنٹیرفورس رجمنٹ کا صدر دفتر بھی واقع ہے،کیوں ایبٹ آباد جیسے نیم فوجی علاقے میں امریکی فوجی ہیلی کاپٹروں کی پرواز کا نوٹس نہیں لیا گیا؟حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسے علاقے میں اسامہ بن لادن کئی سال سے ایک بڑے کمپاؤنڈ میں مقیم تھا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی،ابتدائی اطلاعات یہ بھی ظاہر کررہی ہیں کہ اسامہ بن لادن اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف آپریشن سو فیصد امریکی میرینز نے کیا،جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ امریکی فوجی جب چاہیں،جہاں چاہیں پاکستان کے کسی بھی علاقے میں داخل ہوسکتے ہیں اور باآسانی اپنے ٹارگیٹ کو نشانہ بناکر واپس جاسکتے ہیں ۔

محب وطن حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا امریکی انتظامیہ اور فوج نے اِس آپریشن کے حوالے پاکستان میں کسی کو اعتماد میں لیا تھا اور اگر نہیں تو پاکستان کی فوج،آئی ایس آئی،سول انتظامیہ کیا کررہی تھی،اگرکل کو ایسا ہی آپریشن ہماری ایٹمی تنصیبات کے خلاف کیا جاتا ہے تو پاکستان کے دفاعی ذمہ داران کیا حکمت عملی اختیار کریں گے،کیا وزیراعظم صاحب یہ کہیں گے کہ اُن کے پاس معلومات نہیں تھیں،دفتر خارجہ کی ترجمان فرمائیں گی کہ آپریشن میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا جبکہ فوج کے تعلقات عامہ کا ادارہ آئی ایس پی آر کسی وضاحت سے گریزاں نظر آئے گا،کیا یہ سب لاعلمی افسوسناک اور نہیں شرمناک ہے،کیا یہ تمام سول انتظامیہ،دفاعی اداروں اور سیکورٹی ایجنسیوں کی مجرمانہ غفلت کی نشان دہی نہیں کرتی اور کیا اُسامہ کی پاکستان میں موجودگی وہلاکت حکومت اور اُن تمام انٹیلی جنس کے اداروں کے کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں کھڑے کرتی جو یہ کہتے تھے نہیں تھکتے تھے کہ اُسامہ بن لادین پاکستان میں نہیں ہیں،کیااب پاکستان کی اِس بات پر کوئی اعتبار کرے گا کہ القاعدہ یا افغان طالبان شوریٰ کی قیادت پاکستان میں موجود نہیں ہے ۔

 

شاید قوم کو اِن سوالوں کے جواب کبھی نہ مل پائیں مگرپاکستان کی سلامتی کے حوالے سے جنم لینے والے یہ تمام سوالات آنے والے طوفان بلاخیز کی خبر دے رہے ہیں،اب جبکہ سی آئی اے کے نئے سربراہ کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی تیسری جنگ لڑیں گے دوسری طرف امریکی صدر بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ امریکہ سب کچھ کرسکتا ہے،یہ منظرنامہ امریکی خودسری اور من مانی کی لامتنائی حدوں کو ظاہر کررہا ہے،جس کا تعین کون کرے گا،قدموں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے،وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے،ارباب اقتدار کے خطرناک فیصلوں نے ملک اور قوم کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا ہے،لازمی ہوگیا ہے کہ امریکی مفادات کی جنگ میں پاکستان کے کرداراور 10سالوں پر محیط یک طرفہ تعلقات کے رومانس پر نظر ثانی کی جائے،خوشی اور مبارکباروں کے ڈونگرے برسانے کے بجائے اپنی بقاءکی فکرکی جائے اور اپنی صفیں درست کی جائیں،کیونکہ اب یہ جنگ ہماری سلامتی کی بجائے ہماری تباہی وبربادی کی جنگ بن گئی ہے ۔

جس امریکہ کے خاطر ہماری مسلح افواج نے بے پناہ قربانیاں دیں اور ملک و قوم کا ناقابل تلافی نقصان ہوا،آج اسی” اکیسویں صدی کے ابراہہ“ امریکہ کا صلیبی لشکر نہ صرف ہماری تباہی کے نئے نئے منصوبے بنا رہا ہے بلکہ پاکستان پر حملہ آور ہونے کی تیاری بھی کررہا ہے،آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا پاکستانی علاقے میں دعویٰ پاکستان کےلئے نیک شگون نہیں،اب امریکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور ایٹمی اثاثہ جات چھیننے کی کوششیں تیز کردے گا اورموجودہ صورت حال میں پاکستان کیلئے آئندہ آنے والے دن زیادہ مشکل ہوں گے،چنانچہ پاکستان کو بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔“

ہمارا ماننا ہے کہ وہ بھارتی وزیر داخلہ چدم برم کے شرانگیز بیانات ہوں یا کابل کے میئر حامدکرزئی کی ہرزہ سرائی یا پھر پاکستانی سرزمین پر اُسامہ بن لادین کا ڈرامہ،سب ایک ہی سلسلے کی ایک کڑیاں ہیں،جس کا مقصد امریکہ کے تیار کردہ خاکے میں رنگ بھرکے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور پاکستان میں صلیبی میدان جنگ سجانا ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے قدرتی وسائل،جغرافیائی حدود اور ایٹمی اثاثوں کی جانب بڑھ رہا ہے، افغانستان اور عراق میں ذلت آمیز پسپائی اور شدید جانی و مالی نقصان کے باوجود امریکی انتظامیہ کی نظریں پاکستان پر مرکوز ہیں،اسی وجہ سے امریکہ اپنی آخری بقاءکی جنگ پاکستان میں لڑنا چاہتا ہے اور اپنے مفادات کی قربان گاہ پر پاکستان کی آزادی،خودمختاری،سلامتی اور استحکام کو قربان کرنا چاہتا ہے،لہٰذا امریکی امداداور قرض کے چند حقیر ٹکڑوں کے عیوض اپنی قومی خودمختاری،عزت ووقار اور آزادی کو گروی رکھنے کے بجائے اپنی بقاءاور سلامتی کی فکر کیجئے کہ خاکم بدہن،تیری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

٭٭٭٭٭