URDUSKY || NETWORK

آﺅ سیاست ہی چمکا لیں

105

آﺅ سیاست ہی چمکا لیں

تحریر: محمد وجیہہ السمائ
قدرتی آفات کا نہ کوئی خا ص مرکز ہو تا ہے اور نا ہی کو ئی ان کا ٹا ئم فریم ہو تا ہے البتہ انسان ہو نے کے ناطے ہم اشرف المخلوقات کا شرف ہمیں اﷲ نے عطا کیا اور یہی وجہ ہے کہ انسا ن موسمی تبدیلیوں سمیت قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع کے لئے اس نے طر ح طرح کے آ لے ایجاد کیئے جن کی وجہ سے ان قدرتی آ فات کا پیشگی پتہ لگا یا جا سکے ۔مگر ملک پاکستان میں ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں کیو نکہ یہاں صرف اپنے آپ کی خدمت کے لئے کام کیئے جا تے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ قدرتی آ فا ت نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں کچھ اس طر ح سے لیا ہو اہے کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس سے بے حد پر یشان دیکھا ئی دیتے ہیں لیکن ا ن کے پاس ان حالات کا مقا بلہ کر نے کی سکت باقی نہیں یا پھر ان کی قابلیت بھی یہاں جواب دے جا تی ہے
کہیں جہاز کا ٹکراﺅہے تو کہیں امریکی دنیاوی خدا کے تلوے چاٹتے حکمران ۔تو کہیں حکمرانوں کے حکم ماننے کی وجہ سے ڈارون حملے ۔ اس سب آ فات کی تو کوئی خا ص وجہ بھی نہیں مگر اب جو آ فت پورے پاکستان کو اپنی لپٹ میں لئے ہو ئے ہے اور لوگ کو دنیاوی فکروں سے آ زاد کئے جا رہی ہے وہ سیلاب کی نا ختم ہو نے والی آ فت ہے جس نے ملک کا شاید ہی کو ئی حصہ بچا یا ہو ورنہ ہر جگہ لوگ مررہے ہیں ، بے سہارا ما ئےں بہنیں ہیں اجڑے گھروندے اور ان کے مکین لاکھوں کعب پانی میں وفات پا چکے ہیں کیسی کو اس کی بیٹی نہیں مل رہی تو کسی کو باپ کی لاش کی فکر ہے کسی کا مال یہسیلاب بہا لے گیا تو کسی کے مویشی اس سیلاب کی بللی چڑے ہو ئے ہے ۔ ملک میں سیلاب آ ئے تین ہفتوں سے زیادہ وقت گزر چکا ہے ۔ یہ سیلاب ہر روز کئی کئی گا ﺅ ں بہلائے لے جا رہا ہے گویا سیلاب ہر چیز تنکوں کو طرح بہا ئے لے جا رہا ہے ۔ ا ب تک تین ہزار سے زائد لو گ اس سیلاب کی نظر ہو چکے ہیں لاکھوں لو گ بے گھر ہو چکے ہیں اورتقریبا دو کروڑ کے قریب اس کی وجہ سے متا ثر ہو ئے ہیں اور دن بدن ان میں اضا فہ ہو رہا ہے ۔ہر طرف امداد کے لئے چیخیں اور سسکیاں ہیں ۔ تڑپتے مر یض ہیں مگر اب تک ہمارے حکمران خواب غفلت میں پڑھے ہو ئے ہیں اور ہمارے معزز حکمران خواب غفلت میں پڑھے پڑھے سیلاب کے لئے بڑبڑاتے رہتے ہیں کہ ا س سیلاب کی وجہ سے کا فی نقصان ہوا ہے جو کئی سالوں میں بھی پور انہیں ہو گا اور رہی سہی کسر اپنے وی وی آئی پی جہازوں پر اور ہیلی کاپٹر ز پر چکر لگا کر عوام کو دھوکا دے لیتے ہیں ۔ لوگ مر رہے ہیں اور یہ لوگ مرے ہو ئے لوگوں پر، ان کی بے بسی پر، ان کی مظلومیت پر سیاست چمکا ئے ہو ئے ہیں ایک تو یہ کر کچھ نہیں رہے اوپر سے یہ سیا ست دان بیا ن بھی لوگوں کو تکلیف دینے والے یہ سیاستدان دیتے ہیں جیسا کہ وزیرا علی ٰپنجاب نے وفاق سے 25ارب روپے سیلاب متا ثرین کے لئے مانگے مگر اس کا جواب ہمار ے وفا قی وزیر جناب بابر اعوان صاحب نے یہ کہہ کر دیا کہ 478 ارب کا پنجاب کا بجٹ کہاں گیا ہے حالانکہ یہ جواب دینا ان کا کا م نہیں مگر لگتا ہے وہ ”خاص ذمہ داریاں“ نبھا رہے ہیں ۔اور نہ ہی ابھی تک پاکستان سمیت دنیابھر کے کسی ایک بھی نیوز چینل یا پھر چھوٹے سے لیکر بڑے اخبار تک کسی نے یہ خبر نہیں دی کہ سیلاب زدگانکی مدد بہت اچھے طریقہ سے جاری ہے یامدد سہی ہو رہی ہے
ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف ہر محکمے نے اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کی ہےاور ان سیلان زدگان کے لئے کچھ نا کچھ اکٹھا کیاہے۔کسی محکمے نے ایک دن کی تنخواہ تو کسی نے پا نچ دن کی تنخواہ ان کے لئے وقف کر دی ہے ۔حکمران اپنی عوام کو کچھ دے نہیں سکتے تو اس قوم کے زخموں پر نمک ہا شی کر نا تو بند کر دو ا س کے ساتھ ساتھ اپنے محلوں ۔ اپنے گیسٹ ہاوسز ز ، ملون، فیکٹریوں ، کے واجب الادہ ٹیکسز ز ہی ادا کر دو اس سے بھی لاکھوں ڈالر اکٹھے ہو نگے جو کہ امدادی کاموں میں استعمال ہوسکتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اگر سیاست ہی چمکانی ہے تو”آﺅ سیاست ہی چمکا لیں“اور ان مظلوموں کے لئے جھولی اٹھا اٹھا کر چندہ اکٹھا کر یں ان کے لئے اپنی اپنی پا ر ٹی کے ورکروں ، وزیروں سے پیسے اکٹھے کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر اتنا ہی سیاست چمکا نے کا شوق ہے تو ان کے نام پر حقیقت میں کیمپ لگا کر وہاں فنڈز اکٹھے کریںاپنی قوم کو ایک روشن راہ دکھائیں اے سی والے کمروں سے بیان دینے بند کر دیں
اسی طرح ہمارے ملک میں علماءکا کردار بڑی اہمیت کا حا مل ہے لیکن ان کے اپنے اختلافات کی وجہ سے آج تک مسلمان ایک قو م بننے میں ناکام رہے ہیں اگر سیلاب زدگان کی بات کریں تو ہر گلی ، محلہ، بازار ،حتی کہ مسا جد میں بھی سیلاب زدگان کی امداد کے اعلانات اور فنڈز جمع کیئے جا رہے ہیں اور یہ فنڈز بھی دل کھول کے دینے کی اپیل۔۔۔۔۔۔۔مگر اب ان لوگوں سے بھی لوگوں کا اعتبار اٹھ گیاہے اور اس کام کے ذمہ دار بھی یہ لوگ خود ہیں کیو نکہ پچھلے سالوں میں جو آفات آ ئیں ان میں سب نے دل کھول کر عیاشی کی اور ہر ایک نے اپنی الگ دوکانداری سجا ئے رکھی ۔اور نا آج تک ان علماءنے اپنا کر دار قوم کو اکٹھا کر نے کے لئے ادا نہیںکیا
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو این جی اوز پر بھی نظر رکھنی چا ہیے کیو نکہ یہ این جی اوز باہر کے ممالک سے ان مظلوم لوگوں کے نام سے امداد اکٹھی کر تی ہیں مگر اس کا 90%حصہ اپنی ذات پر خر چ کر تے ہیں ۔
ان بحرانو ں کا پاکستان کے لوگ مقا بلہ کر سکتے ہیں اس کے لئے ہمیں اکٹھا ہو نا ہو گا کیو نکہ یہ دور ،یہ وقت ہم سے یہ تقاضا کر رہا ہے اور کیو نکہ ایک طرف دنیا داری ہے تو دوسری طرف ہمارادین جو ہمیں مسا ئل سے ثابت قدمی اور صبر جیسے دیگر درس دیتاہے لیکن یہ بات آ ن دی ریکارڈ ثابت ہو گی۔ کہ جب سیلاب ختم ہو گا تو ان تمام ملکی اور غیر ملکی میڈیا خصوصا پر نٹ میڈیا پر انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت پر فنڈز جمع کر نے والے شخص کی بڑی بڑی اور بے قصور اور مجبور لوگوں کے ساتھ ساتھ تصاویر شا ئع ہو نگی جو اپنی کارکردگی عوام کو دیکھا ئیں گے اور یہ سب دنیا داری کی باتیں اور حرکتیں ہیں اگر ہم خالصتا اﷲ کی رضا کی خاطر لوگوں کی مدد کریں تو انہیں کسی تشہیر کی ضرورت ہی نہیں بات دراصل یہ ہے کہ ایسے مواقع پر جہاں نیک لوگ کام کر تے ہیں وہیں پر برے بھی نیک لوگوں کا روپ دھار کر ان کی صفوں میں شامل ہو جا تے ہیں جو مظلوموں، بے بسوں کا حق مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں بات یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایسے برے لوگوں سے لے کر حکمران طبقہ تک کی اب تک کی کارکردگی کا مختصر مگر جا مع جا ئزہ لیا جا ئے تو اس کا یہی نتیجہ از کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں صرف سیا ست چمکا نی ہے۔ اور چمکا رہے ہیں
اس موقع پر اگر پاک فوج کا ذکر نہ کیاجائے تو اس کی تو ہین کے مترادف ہو گی کیونکہ اس فوج نے پاکستانی قوم کو ہر مشکل ہر مصیبت سے ایسے سر خرو کیا کہ عالمی طاقتیں بھی حیران رہ گئیں او ر پا ک فوج کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمیں ایک قوم ہو نے کا ذثبو ت دینا ہو گا اور دنیاکو یہ دیکھانا ہو گا کہ تم جو مرضی الزام لگا تے رہو ہم ایک قو م ہیں اور ان مشکل کی گھڑیوں سے بھی ایسے گزر جا ئیں گے جیسے ۔۔۔
اﷲ ہم سب کو ان سیلاب زدگان کی مدد کی تو فیق عطا فرمائے اور ان کو دکھ کی اس گھڑی میںصبر کی تو فیق عطا فرمائے(آمین)