URDUSKY || NETWORK

آگ کے شعلے

111

طارق حسین بٹ(چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم)
جب سے انسان نے اس کرہِ ارض پر قدم رکھا ہے اس وقت سے لے کر آج تک انسانوں کی رشدو ہدائت کےلئے خدا کی جانب سے احکا مات نازل ہوتے رہے ہیں تاکہ انسانوں کے ار تقا اور انکی بالیدگی کو واضح سمت عطا کی جا سکے۔اپنے احکامات کو انسا نوں تک پہنچا نے کےلئے خدا جن شخصیتوں کا انتحاب کرتا ہے انھیں رسول کہا جاتا ہے۔ ایسے فرستادہ انسانوں میں کچھ رسول بہت زیادہ برگزیدہ ،اولا لعزم اور محبوب تھے اور تاریخ کے اوراق ان کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔حضرت ابرا ہیم ،حضرت اسحاق، حضرت نوح،حضرت موسی ، حضرت داﺅد،حضرت سلیمان ،حضرت یوسف ،حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفےﷺ ایسے برگزیدہ رسول تھے جن پر خدا نے شریعت کے احکامات صادر کئے۔ زبور ، تورات اور قرآنِ حکیم خدا کی جانب سے عطا کردہ الہا می کتا بیں ہیں اور ان پر ایمان لانے والے ان کتابوں کے تقدس کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔دنیا کے تین بڑے مذاہب یہودیت عیسائیت اور اسلام پر ایمان لانے والے سارے افراد ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کتابوں کا احترام کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔۔
قرآنِ حکیم مسلمانوں کی مقدس ترین مذہبی کتاب ہے اور اس کتاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی حفا ظت کا ذمہ خود خدا نے اپنے ذمے لے رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی اس کتاب میں زیر زبر کی کمی بیشی بھی نہیں کر سکا۔اس کتاب کے اسلوب اور اس کے اندازِ بیان کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ مذہب اور ادب کی دنیا میں واحد ایسی کتاب ہے جس میں نثر اور شاعری کی تمام خوبیاں بیک وقت موجود ہیں۔ اہلِ عرب نے قرآن جیسا دلکش اور پر اثر اسلوب پہلے کبھی نہیں د یکھا تھا لہذا وہ قرآن کے اسلوب کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے تھے ۔ کفارِ مکہ سرکارِ دو عالم ﷺ کو اسی لئے شاعر کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ اس کتاب کے اسلوب کا ان کے پاس کو ئی جواب نہیں تھا۔ایک امی ﷺ کے لہن مبارک سے قرآنی آیات سن کر وہ حیران اور بے بس ہو جا تے تھے کیونکہ ایسا خوبصورت اور بصیرت افروز کلام انھوں نے اس سے پہلے کبھی دیکھا Writer-Logo سنا اور پڑھا ہی نہیں تھا۔ان کی ساری دانش، حکمت،زبان دانی اور قادر الکلامی اعجازِ قرآن کے سا منے دھری کی دھری رہ جاتی تھی ۔اسلام کی مخالفت میں ایک عنصر قرآنی اسلوب کا اعجاز بھی تھا کیونکہ سارے اہلِ زبان اس اسلوب کے سامنے خود کو بہت چھوٹا اور کمتر محسوس کرتے تھے۔وحی کی زبان اور اس میں پوشیدہ صداقتیں عام انسانوں کی فکر اور سوچ سے بہت بلند اور ماور ا ہو تی ہیں لہذا سرکارِ دو عالم ﷺ کے ہم عصر وحی کی زبان، اس میں بیان کردہ حقائق اور اس کے اسلوب کو سمجھنے سے قاصر تھے۔وہ آپﷺ پر شاعر اور جادو گر ہو نے کا الزام دھرا کرتے تھے کیونکہ ان کی عقل وحی کی کہنہ و حقیقت کو جاننے سے معذور تھی۔ان کا ذہنِ نا رسا قرآن میں بیان کردہ عمیق اور دور رس حقائق تک پہنچنے سے قاصر تھا لیکن جن کی نگاہ ان حقائق کا ادراک کر لیتی تھی وہ دولتِ اسلام سے بہرہ ور ہو جاتے تھے۔
اک دانشِ نورانی اک د انشِ برھانی۔ہے دانشِ برھانی حیرت کی فرا وانی
اس پیکرِ خاکی میں اک شہ ہے سو وہ تیری۔میرے لئے مشکل ہے اس شہ کی نگہبانی  (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
قرآنِ حکیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور دنیا کی وہ منفرد کتاب ہے جس کے لاکھوں حفاظ موجود ہیں جو صبح و شام اس الہامی کتاب کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور یوں الفا ظ کی تلاوت کا نور فضاﺅںمیں اپنی نورانیت بکھیرتارہتا ہے۔ قرآنِ مجید مسلمانوں کے لئے ان کے سارے قوانین کا ماخذ ہے اور ان کی زندگی کے سارے گوشوں پر محیط۔ قرآن نے جس کو حرام کہا وہ ازل تک حرام قرار پایا اور جس کو حلال و طیب قرار دیا ا س کی روح کے مطابق عمل کرنے میں مسلمانوں کے لئے د ین و دنیا کی ساری سعادتیں سمٹ آتی ہیں ۔دنیا کی کو ئی طاقت قرآنِ حکیم کے حرام کو حلال نہیں کر سکتی اور اس کے حلال کو حرام قرار نہیں دے سکتی کیونکہ جس شہ کے حلال و حرام کا فیصلہ ربِ ذولجلال نے خود کر رکھا ہو اس پر انسانوں کے خیا لات اور تدبر چہ معنی دارداسی لئے دیدہ ور نے دو جملوں میں اس ساری حقیقت کو اتنے خوبصورت اور سادہ الفاظ میں واشگاف کر دیا تھا کہ اس سے بہتر اندازِ بیاں تلاش کرنا مشکل ہے۔
گر تو می خواہی مسلماں زیستن۔۔۔نیست ممکن جز بقرآن زیستن  (ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال)
قرآنِ مجید کا مرکزی موضوع توحید، انسان اور کائنات ہے لہذا اس کے اندر تکر یمِ انسانیت کو بڑا مقدم اور اعلی عطا کیا گیا ہے اور اگر میں یہ کہوں کہ تکریمِ انسانیت ہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر اسلام کی ساری عمارت استوار کی گئی ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔اسوداں بہ احمراں ا میحتند اسلام کا آفاقی پیغام تھا اور با غلامِ خویش بر یک دستر خواں نشست اس کا عملی اظہار تھا جس نے کمزوروں اور ناتوانوں کو اسلام کی جانب مائل ہو نے کا جذبہ عطا کیا ۔تکریمِ نسا نیت کے لئے مذہب کی رکاوٹیں اور دیواریں بھی کو ئی معنی نہیں رکھتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرکارِدو عالم ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو مسجدِ نبوی میں مہمان بنا کر دنیا پر واشگاف کر دیا تھا کہ بخثیتِ انسان ہر انساں وا جب ا لتکریم ہے اور اسکی تکریم میں مذہب کا اختلاف بالکل آڑے نہیں آ سکتا لیکن کچھ لوگوں کے لئے مذہب کی بنیادوں پر دوسرے انسانوں کی دل آزا ری کرنا اور ان کے مذہبی جذبات کا خون کرنا معمولی فعل ہے لہذا وہ ایسا کرناا پنے مذہب کی خدمت بھی سمجھتے ہیں اور اپنے لئے باعثِ افتحار بھی حالانکہ ایسا کر کے وہ خود کو دھو کہ بھی دے رہے ہوتے ہیں اپنے مذہب کا بھی ابطال کر رہے ہو تے ہیں اور انسانیت سے دشمنی کا ارتکاب بھی کر رہے ہورے ہیں۔۔
قرآنِ حکیم وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسانیت کو بنیا دی حقوق کا چارٹر اور قوانین کا مکمل مجموعہ دیا اور اس بات کو یقینی بنا یا کی انسان کے بنیادی حقوق کو کوئی جابر اور ظالم حکمران طاقت اور قوت کے بل بوتے پر سلب نہ کر سکے۔خواتین کو احترام اور وقار عطا کیا انھیں وراثت کا حقدار ٹھہرا یا۔ ماں کہہ کر اس کے قدموں میں جنت رکھ دی وگرنہ اس سے قبل عورت توجنسی تسکین کا ذریعہ تھی اور اس کے احترام اور وقار کا دور دور تک نام و نشان تک نہیں تھا۔یہ عظیم کتاب مذہبی بھا ئی چارے اور رواداری کا درس دیتی ہے اور میزانِ عدل قائم کرنے کا حکم دے کر معاشرے سے ظلم اور ناہمواریوں کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے ۔ کتنی بد قسمتی ہے کہ اسی کتاب کو جو انسانیت کے سکون اس کی فلاح اس کی نجات اور اس کی رشدو ہدا ئیت کے انمول موتی اپنے دامن میں سمیٹے ہو ئے ہے اسی کتاب کو ایک جنونی پادری ٹیری جونز نے سرِ عام جلانے کی ناپاک جسارت کر کے اپنے مقدر کو آگ کے شعلوں کے حوا لے کر دیا ہے۔ جلا لیاہے اس نے خود کو ایک ایسی آگ میں جس کے شعلے دلوں کو لپیٹ لیتے ہیں۔
قرآنِ کریم ایک الہامی کتاب ہے جس پر کرہِ ارض کے کروڑوں انسان ایمان رکھتے ہیں اور اس کے تقدس اور حرمت پر کٹ مرنا اپنے لئے سعادتِ دین و دنیا تصور کر تے ہیں لہذا ٹیری جونز نے اسے جلانے کا مکروہ عمل کر کے ان سب کے جذبات کو ٹھیس پہنچا ئی ہے اور ان کے ایمان کا خون کیا ہے ۔ٹیری جونز کو شائد خبر نہیں کہ اس کے اس مکروہ فعل سے عا لمِ سلام کے دل پر کیا گزری ہے۔ اہلِ ایمان شدتِ جذبات سے دیوانے ہو چکے ہیں وہ ٹیری جونز کے تعاقب میں اس کی دہلیز تک پہنچ جائیںگے اور اس کا کام تمام کر دیں گے کیونکہ اس کے فعل نے ان کے ایمان اور اعتقاد کی بنیادوں پر حملہ کیا ہے اور ان کے ایمان کی اس جنت کو بھسم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے جسے وہ زندگی سے زیادہ عزیر رکھتے ہیں۔قرآن، مجید کے تقدس کا ا ندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ مسلمان اس کتاب کو با وضو ہو کر ہاتھ لگا تے ہیں اور غیر پاکیزہ حالت میں اسے چھونے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کو کھولتے وقت اپنے ہو نٹوں سے چومتے ہیں اور اسے اپنی آنکھوں سے لگا تے ہیں اسکی تلاوت پر سارے مسلمان خاموشی کی چادر اوڑھ کر سراپا کان بن جا تے ہیں۔ عورتیں اپنے سروں کو دوپٹوں سے ڈھانپ کر شرم و حیا کا روپ اختیار کر لیتی ہیں جو اس الہامی کتاب سے ان کے ا حترام اور محبت کا بین اظہار ہے۔مر ض ا لموت میں جب زندگی کی امید دم توڑ جا تی ہے اور سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے کے قریب ہوتی ہے تو اسی کتاب کی تلاوت سے موت کے مراحل اور اذ یتوں کو آسان کیا جاتا ہے۔ خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جن کو زندگی کی ڈوبتی سانسوں میں قرآنِ پاک کی آیات کی تلاوت کرنا اور سننا نصیب ہو جاتا ہے۔۔ عقیدت کا معیار جب ایسا بلند ہو تو پھر قرآن کی حرمت ، تقدس اور عظمت کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں ہو نا چائیے۔۔
فاش گوئم آنچہ در دلِ مضمر است۔۔ایں کتابِ نیست چیزے دیگر است
صد جہاں تازہ در آیاتِ اواست۔۔عصر ہا پچیدہ در آناتِ او است  (ڈاکٹر علمہ محمد اقبال)
ایک وقت تھا کہ سارے یورپ کی کیمو نزم کے خوف سے نیندیں اڑی ہو ئی تھیں لیکن کیمو نزم کے زوال اور شکست و ریخت کے بعد مغربی اقوام کی نگا ہیں اسلام پر مرکوز ہو چکی ہیں ہیں۔ وہ اسلام کو اپنے قائم کردہ سرمایہ دار انہ نظام کےلئے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں لہذا اسلام کو کمزور کرنے کےلئے اس کے خلاف صبح و شام سا زشوں میں جٹے ہو ئے ہیں۔ کبھی وہ افغانستان پر چڑھا ئی کر دیتے ہیں کبھی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور کبھی مشرقِ وسطی کو اپنے آہنی بنجوں میں دبوچ لیتے ہیں۔ ان کی آہنی گرفت کا واحد مقصد صرف اتنا ہے کہ ترقی اور قوت کا کو ئی موقع مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔یورپ کو علم ہے کہ مذہب کی قوت ہی مسلم اقوام کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے ۔ یورپی اقوام کو بخوبی علم ہے کہ خدائے واحد کا اقرار سرکارِ دو عالم ﷺ سے محبت اور قراآن پر ایمان مسلمانوں کے لہو میں شامل ہے لہذا یہ قوم کسی وقت بھی جذبِ دروں کی قوت سے ساری بازی پلٹ سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ٹیری جونز سے اس طرح کی خباثت کا مظاہرہ کر وایا گیا ہے۔ ٹیری جونز شائد اپنے پیشرو سلمان رشدی کا نجام بھول چکا ہے جب وہ شیطانی آیات کی تصنیف کے بعد اسلام کے شیدا ئیوں سے ڈر کر رو پوش ہو گیا تھا اور اس کی زندگی اپنی ساری رعنایوں کے باوجود اس پر ایک عذاب کی شکل اختیار کر گئی تھی۔امام خمینی کے فتوے نے اس پرشب و روز کے دروازے بند کر دئے تھے ا ور وہ اپنی جان بچا نے کی خاطر تنگ و تاریک تہہ خا نوں میں چھپتا پھرتا تھا ۔ زندگی کی رعنا ئیاں ا ور نعمتیں اس پر حرام ہو گئی تھیں اور وہ ایک خزاں رسیدہ پتے کی مانند ہوا میں بکھر گیا تھا۔
میڈیا اور انفارمیشن کے اس دور میں جب دوسروں کے جذبات و خیالات کا احترام کیا جا نا انتہا ئی ضروری تصور کیا جاتا ہے اور دنیا میں جمہو ریت نے عوام کے اندر برداشت اور تحمل کے جذبات کو پروان چڑھایا ہے اسی دور میں مہذب امریکہ کی ایک ریاست فلوریڈا کا ایک پادری ٹیری جونز اپنے بہت سے حواریوں کے درمیان اسلام کی سب سے مقدس اور الہامی کتاب کو نذرِ آتش کرتا ہے اور کروڑوں انسانوں کے جذبات کو مجروح کرتا ہے۔ امر یکی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے جنونی شخص پر مقدمہ چلا کر اسے قرار واقعی سزا دے تا کہ آ ئندہ کسی کو ایسی مکروہ حرکت کرنے کی جرات نہ ہو سکے۔مسلمان مذہب کے بارے میں ہمیشہ سے جذبا تی واقع ہو ئے ہیں لہذا اگر کسی ایمان صفت مسلمان نے درندہ صفت ٹیری جونز کا قتل کر دیا تو پھر دنیا میں دہا ئی مچا ئی جائے گی کہ مسلمان دھشت گرد ہیں حا لانکہ سچ تو یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو جلانے سے بڑی دھشت گردی اور کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ ٹیری جونز نے مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد اور روح کو آگ کے شعلوں کے حوالے کیا ہے لیکن اسے یاد رکھنا چائیے کہ ایک دن خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ اسے ایسا جلائے گی کہ اس کا نام و نشاں بھی باقی نہیں رہے گا ۔قرآن خدا کی وہ کتاب ہے جو اس نے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفے ﷺ پر نازل کی تھی اور محبوبِ خدا سے منسوب ہر چیز مسلمانوں کو بہت عزیز ہوتی ہے اور اس کی حر مت کے لئے اپنی جان قربان کرنا ا ان کے لئے کو ئی معنی نہیں رکھتا۔۔
آن کتابِ زندہ قرآنِ حکیم۔۔۔حکمتِ او لا یزال است و قدیم
نوعِ انساں را پیامِ آخریں۔۔۔حاملِ او رحمت للعالمیں  (ڈاکٹر علمہ محمد اقبال)

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،