URDUSKY || NETWORK

آنسوؤں کے رنگ

114

آنسوؤں کے رنگوں کو لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے بہت معمولی باتوں پر بھی آنسوﺅں نکل آتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے آنسو زندگی کے بڑے بڑے تلخ حادثات پر بھی نہیں نکلتے مگر کچھ آنسو ایسے بھی ہوتے ہیں جو آنکھوں سے نمودار تو نہیں ہوتے مگردل ہی دل میں وہ آنسو وجود کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔سوچنے babar-nayyabسمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کر دیتے ہیں بدقسمتی سے یہی آنسو اب پاکستان کے لوگوں کا مقدر بن چکے ہیں۔بم دھماکوں نے عوام کو لرزا کر رکھ دیا ہے ۔آہوں اور سسکیوں میں ڈوبی ہوئی آواز ہیں چاروں طرف سے سنائی دے رہی ہیں ۔موت تو اٹل ہے وہ تو آنی ہے مگر بم دھماکوں میں مرنے والوں کا صدمہ کبھی کم نہیں ہو سکتا اپنے پیاروں کے خون میں لتھڑے ہوئے ساکت جسموں کو اُٹھائے لوگوں کے چہرے پر دکھ اور غموں کے اذیت ناک بوجھ کے ساتھ حیرت بھی ہے کہ کس جرم کی پاداش میں یہ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے آخر یہ خوفناک انتقام کی آگ ہم معصوم بچوں ، مرد و عورتوں پر کیوں مسلط کی جا رہی ہے ۔ا ۔آخر کیوں لوگ جواز ڈھونڈ ھ رہے ہیں کہ ان کے لوگ بھی مر ے ہیں اور وہ بدلہ لیں گئے خدارا یہ جواز ڈھونڈنا بند کریں آخر کب تک ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ان سفاک لوگوں کی صفائی دیتے رہیں گئے اب یہ جنگ ہماری گلی ،محلوں اور اور مارکیٹوں ،ہماری مسجدوں اور درباروں تک پہنچ چکی ہے۔اب صرف مذمتی بیان دینے سے کچھ نہیں چلے گا افسوس کے اب قوم کی صحیح راہنمائی کرنے والا کوئی لیڈر نہیں ہے اسلام کے لبادے اوڑھے ہوئے دہشت گردوں کو تفریق کرنے والے کوئی علما ء نہیں ہیں اگر کچھ ہیں تو ان کی تعداد اُنگلیوں پر گنی جا سکتی ہے وہ ایک دوسرے سے ہی متفق نہیں ہیں ۔قوم غموں سے چکنا چور ہے پاکستان کی درو دیوار خون سے رنگین ہو چکی ہے۔ ہر طرف بے بسی کے آنسوؤں ۔آج ہم سب کو اکٹھا ہونا ہو گا اور مل کر انسانیت کے دشمنوں کو للکارنا ہو گا۔آج ہمیں اتفاق و اتحاد کی سخت ضرورت ہے خدارا آج اپنے تمام گلے شکوے ماضی کے قبرستان میں دفن کر کے صرف پاکستان کو بچانے کے لیے آگے بڑھیں آج ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارا اپنا ہے ہم چاہے لاکھ آنکھیں چر ا لیں مگر یہ کڑوی حقیقت ہمیں نگلنا پڑے گئی ماضی میں کی گئی سنگین اور بدترین غلطیاں آج ہمارے معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑرہی ہیں آخر کب تک آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی عوام لہو کے نذرانے پیش کرتی رہی گئی ۔محفوظ دفتروں میں بیٹھے ہوئے حکمران کیا جانے جب زندگی کا بے رحم قتل ہوتا ہے جب ہنستی کھیلتی زندگی کو درندگی سے کچلا جاتا ہے تو دلوں دماغ پر کیسے اذیتوں کے ہتھوڑے ہر لمحے لگتے ہیں جس کسی گھر کا چراغ بجھتا ہے وہی جانتا ہے کہ اس چراغ بجھنے سے پورا خاندان تاریکیوں اور غم ناک اندھیروں میں ہمیشہ کے لیے ڈوب جاتا ہے ۔کیا کسی عام انسان کی جان جانا کوئی بڑی خبر نہیں ہوتی کیا صرف 5لاکھ سے کسی کے اشکوں روکا جا سکتا ہے کیا صرف مذمتی بیانوں سے دکھوں اور ہولناک غموں کے ٹوٹنے والے پہاڑوں پر صبر کا مرہم رکھا جا سکتا ہے ۔یہ سسکتی ہوئی سسکیاں ان ظالم اور درندہ صفت لوگوں کا کبھی پیچھا نہیں چھوڑیں گئی ان خون میں ڈوبے ہوئے آنسو ایسے ہی جذب نہیں ہوں گئے جب تک ان وحشی لوگوں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچائیں گئے ۔ اب مزید آنسوؤں کی سکت نہیں رہ گئی اب آنسوؤں کا رنگ بدلنا شروع ہو چکا ہے اب ان آنسوؤں میں التجا ہے فریاد ہے اور سسکیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو کہ رہا ہے کہ اےاﷲ ہمارے معصوم لوگوں کو مارنے والوں کو نشان عبرت بنا دے ان پر زندگی کی رونقیں ختم کر دے ان کی خوشیوں کو معدوم کر دے ان ظالموں کو جہنم واصل فرما۔آج حکومت کو نئے سرے سے سوچنا ہو گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ دہشت گرد ہر جگہ اپنی بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں کیا ہماری سکیورٹی اور خفیہ ادارے اتنے کمزور ہے چکے ہیں اُنہیں کچھ خبر نہیں ہے کہ کون کہاں سے آ رہا ہے اور وہ کس طرح سے اپنے لوگوں کو اپنے لوگوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے ۔ان دھماکوں نے پاکستان کی مضبوط سکیورٹی کو تہس نہس کر دیا ہے ۔ہم ہر دھماکے کے بعد ہی سکیورٹی کیوں سخت کرتے ہیں اُس سے پہلے کیوں نہیں کر سکتے ۔ہمیں ہر جگہ چاہے وہ عام ہو یا خاص وہاں ضرور سکیورٹی کا بندوبست کرنا پڑے گا اب یہ جنگ ہمیں سب کو مل کر لڑنی ہے جو ہم پر مسلط کر دی گئی ہے ۔ہر ایک معصوم اور بے گناہ آدمی کی زندگی بہت قیمتی ہے۔حکومت کا فرض اولین ہے کہ اُ س کو تحفظ دے ےا پھر حکومت کرنا چھوڑ دے ۔اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان ہمیشہ سے سازشوں کا شکار رہا ہے مگر افسوس ہمارے لیڈر حضرات نے سازشوں سے لڑنے کی بجائے ہمیشہ ایک دوسرے سے اُلجھنے میں وقت کا ضیاع کیا ہے اگر ہم نے پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو ایسا تب ہی ہو گا جب تک ہم اپنے مفادات سے زیادہ ملکی مفادات کا سوچے گئے اپنی ہر من چاہی چیز کو پالنے کی خواہشات کو ترک کر کے صرف پاکستان کو مضبوط کرنے کی سوچیں گئے کہتے ہیں قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اگر ایک بندہ بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہوا آج قطرہ بن جائے تو پھر دریا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا جیسے افتخار محمد چودھری عدلیہ کی تاریخ میں ایک قطرہ بن کر سامنے آئے تھے پھر وہی قطرہ آج انصاف کا منہ بولتا ہوا دریا ہے ۔اس وقت ہمیں سب سے پہلے عوام کی آنکھوں میں بہتے ہوئے آنسوؤں کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے ۔
ہماری ماؤں بہنوں ،بچوں کے خون سے ہا تھ رنگنے والوں کے ساتھ مرو یا مارو والی بات کرنی ہو گئی ان دہشت گردوں کی نسلوں کا صفایا ہی ہمارے زخموں پر کچھ مرہم رکھ سکے گا۔مرنے والے لوگوں کے دکھ ،کرب کو کوئی بھی بیان نہیں کر سکتا ایسا کرنے سے الفاظ ختم ہو جائیں گئے اور اُنگلیاں اُن کے درد کو محسوس کرتی ہوئی ٹوٹ جائیں گئی ۔ماؤں کے آنسو ،بہنوں کے آنسو ،سبھی مرنے والے پیاروں کے عزیزوں کے آنسو اُن کی آنکھوں کی طرح ساکت ہیں آنکھوں میں تو اُن کے گھروں میں واپس آنے کا انتظار تھا مگر نہیں پتا تھا کہ یہ انتظار ہمیشہ کا دکھ بن جائے گا ۔بھارت ،اسرائیل جیسے دشمن کو گلا شکوا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے دشمن سے گلا نہیں کرتے بلکہ دشمن کو جواب دیتے ہیں ۔بمبئی حملوں میں بھار ت نے پوری دنیا میں چیخ چیخ کر پاکستان کو ملزم بنا دیا اور ہم کھلے ثبوت ہونے کے باوجود مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں شاید وہ مناسب وقت تب آیا گا جب مناسب لوگ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہوں گئے جو کہ جھوٹی اُمیدوں پر مبنی ہے خواب ہے جو کبھی تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
آنسو اب آنسو کب رہے ہیں وہ تو لاوابن گئے ہیں مجھے ڈر ہے یہ لاوا پھٹ نا جائے اگر یہ پھٹ گیا تو کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ ﷲ شہید ہونے والے لوگوں کے درجات بلند کرے طوفانوں اور بارشوں کی طرح آنکھوں سے نکلنے والے آنسو پر ہمت اور حوصلے کا بندھ باندھے ۔آمین