URDUSKY || NETWORK

زلزلے کیوں آتے ہیں؟

11

عبدالجلیل منشی ۔ کویت

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو بےشمار نشانیاں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں زلزلوں کی کثرت ہوگیکسی زمانے میں جب کہیں سے یہ اطلاع ّآتی تھی کہ فلاں جگہ زلزلہ آیا ہے اور اتنے لوگ اسکے نتیجے میں لقمہ اجل بن گئے ہیں تو دیندار اور خوف خدا رکھنے والے لوگ توبہ استغفار کرنے لگتے تھے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی رو سے یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے مگر آجکل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں زلزلے نمودار ہو رہے ہیں اور انکے نتیجے میں جانی اور مالی خسائروقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں مگر لوگوں کے دلوں میں اس بات کا خوف جانگزین نہیں ہوتا کہ زلزلوں کا اس شدت کے ساتھ آنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بلکہ دلوں پر خوف کی جگہ ایک بے حسی کی کیفیت طاری ہو چکی ہے اور نصیحت حاصل کرنے کی بجائے تجاہل سے کام لیا جانے لگا ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سورةالزلزال میں وقوع قیامت کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ:جب زمیں اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائےگی: (سورة الزلزال۔ آیة ۱) مفسرین اس آیت سے یہ معنی لیتے ہیں کہ اس وقت زمین کا کوئی مخصوص حصہ نہیں بلکہ پورے کا پورا کرہ ارض ہلا دیا جائیگا جسکے نتیجے میں دنیا کا وجود ختم ہو جائےگا مگر اس عظیم زلزلے کے واقع ہو نے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زمین کے مختلف حصوں پر زلزلوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائےگا یہ سب کچھ اللہ کی مشیعت اور حکم سے ہوگا مگر چونکہ ہر کام کے ہونے کی کوئی منطقی وجہ اور اسباب ہوتے ہیںاسی طرح سائنسدانوں نے زلزلوں کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب بھی تلاش کر لئے ہیں جس طرح بارش اللہ کے حکم سے ہی برستی ہے اور بادل رب کے حکم سے سمندروں سے پانی لے کر جہاںاللہ کا حکم ہوتاہے وہاں برستے ہیں اور اس طویل عمل کو سائنسدانوں نے مختلف تماثیل کے زریعے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سورج کی تمازت سے سمندر کا پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح وہ بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے اور کیسے بارش برستی ہے
پہلے وقتوں میں جب سائنس اور ٹکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھیکسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اسکی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہےمذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے اسی طرح ہندوں دیو مالائی تصور یہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جنکے مطابق زمین کی تہوں میں موجو د ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیںEarthquake-Japan
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراسطرح ہر نئے سا نحے کے بعد اسکے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہےیوںتو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے پیشگی اطلا ع فراہم ہوجاتی ہو او ر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہےمثلا سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں ، انکی شدت اور انکے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے زریعے کیا جاسکتا ہے اور اس سے بچاو کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے بےشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛
ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اور دوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیںجنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیںموجود ہوتا ہے میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیںٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دہنس جاتا ہو اور کچھ اوپر کو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اسکے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پر منحصر ہے
اسی طرح جب آ تش فشا پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوںسے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میںشدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کیلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہیںاور ماہیت کے حساب سے چار اقسام میں انکی درجہ بندی کی گئی ہے دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیںپرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے سیکنڈری ویو ززمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیںمگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا
زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید تلاتم او ر لہروں میںارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیںجو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کیلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کر ناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جسکی مثال ۴۰۰۲ ءکے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوںکے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے
اورا ب اس سے کچھ کمتر درجے کے مگر جاپان کی تاریخ کے سب سے بڑے زلزلے کابھی ذکر کر لیا جائے جو ۱۱ مارچ کوجاپان کے شمال مشرق میں تباہی اوربربادی کی نئی داستانیں رقم کر گیا اور جس نے۴۰۰۲ءمیں آنے والے انڈونیشیا کے زلزلے اور سونامی کی یاد تازہ کردی ہے ۹۸ (آٹھ اعشاریہ نو ) قوت کے اس زلزلے نے جسکا مرکز ٹوکیو سے ۰۷۳ کیلومیٹر دور بحر الکاہل میں تھاجاپان کے متعلقہ اداروں کو سونامی وارننگ جاری کرنے پر مجبو ر کردیازلزلے اور اسکے نتیجے میں آنے والے سونامی نے جاپان کے شمال مشرقی حصے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے ابتک کی غیر متصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے اور سینکڑوں افرادلاپتہ ہیںجبکہ مالی نقصانات کا تخمینہ اس مرحلے پر لگانا ایک مشکل امر ہے
زلزلے کے نتیجے میں ایک ایٹمی ریکٹر میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں قریبا ۰۴ (چالیس ) افراد ہلاک ہوئے اور کولنگ سسٹم کے کام نہ کرے کی وجہ سے تابکاری کے اخراج کا خطرہ بڑھ گیا ہےزلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں واقع تمام ۱ ۱ ایٹمی ریکٹر زفوری طور پر بند کر دئے گئے ہیں تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے جبکہ کسی امکانی خطرے کے پیش نظر ریکٹر کے قرب وجوار میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کا انخلاءعمل میں لایا جارہا ہے
جاپان کے انسٹیٹیوٹ آف انرجی اکنامکس کے نیوکلیئر انرجی گروپ کی لیڈر ٹوموکو موراکامی کی کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں تابکاری کے فوری اخراج کا کوئی خدشہ نہیں ہے اگر فیول راڈز منکشف بھی ہوجاتے ہیں تب بھی و ہ فوری طور پر نہیں پگھلیں گے انکے کہنے کے مطابق اگر فیول راڈز پگھل بھی گئے اور ریکٹر کا اندرونی دباو بڑھ بھی گیا تب بھی اس وقت تک تابکاری کے اخراج کا کوئی خطرہ نہیں ہے جبتک ریکٹر کے کنٹینرز درست کام کار رہے ہیں
دوسری جانب کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امن کے جوہری توانائی کے ایک ماہرمارک ہبس نے زلزلے کے بعد جاپان میں ایٹمی ریکٹروں کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہونے کی صورت میں سنگین موڑ اختیار کر سکتے ہیںایک یا ایک سے زیادہ ایمرجنسی ڈیزل جنریٹرز جو کہ ریکٹر کے کولنگ سسٹم کو بجلی سپلائی کرتے ہیں انکے کام نہ کرنے کی غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ہنسی مذاق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جاپان کے لئے یہ تشویش کی بات ہے کہ ریکٹرزکے کولنگ سسٹم کی فعالیت کو برقرار رکھتے ہوئے ریکٹر کی حرارت کو اعتدال پر رکھا جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا اوربڑھتی ہوئی حرارت پر قابو نہیں پایا جاتا تو بنیادی ایٹمی ایندھن حرارت کی زیادتی کے باعث پگھل کر نقصان کا باعث بن سکتے ہیں جسکے نتیجے میں تابکاری کے اخراج کو نظر انداز نہیں جاسکتا
اس بات کی بھی پیشنگوئی ہے کہ آفٹرشاکس کا سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہنے کا امکان ہے اور سات درجے تک کے جھٹکے جاپان کے شہروں خصوصا شمال مشرقی حصے کو جھنجھوڑتے رہیںگے جس کے نتیجے میں مزید کتنی تباہی جاپان کے اور جاپانیوں کے مقدر میں لکھی جاچکی ہے یہ توآنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے اور ریکٹر کا معاملہ اگر قابو سے باہر ہوگیا اور تابکاری پھیلی تو اس کے نتیجے میں کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں یہ بھی غیر مبہم ہے علاوہ ازیں سونامی کہاں کہاں تک تباہی کی علامت بن کر پہنچتا ہے اور اسکے نتیجے میں دنیا کے کتنے ملکوںمیں مزید کتنا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے یہ امر بھی وقت کی مٹھی میں بند ہے ہم صرف یہ دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ انسانوں کو مزید ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ
رکھے آمین