URDUSKY || NETWORK

جمہوریت نہیں شریعت

9

تحریر : سید فرزند علی ( لاہور)

پنجاب حکومت سے پیپلزپارٹی کو چھٹی کرواکر آخر مسلم لیگ(ن) نے حقیقی اپوزیشن کاکردارادا کرنے کا فیصلہ کرہی لیا یقینااس اقدام سے مسلم لیگ (ن) کوملنے والا فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی کسی حد تک کم ہوگا تاہم مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف کااب بھی یہ کہناہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ بخوشی نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے تین سالہ لمبی داستان ہے انہوں نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین صدر مملکت آصف علی زرداری کی وعدہ خلافیوں کا بھی ذکر کیاجس میں انہوں نے متعددبار عوامی خواہشات کے مطابق اقدامات اٹھانے کا معاہدہ کیاتھا لیکن پھر خود ہی اسے توڑ کر یہ قراردیاکہ سیاسی جماعتو ں کے درمیان ہونے والے معاہدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے جسے تبدیل نہ کیاجاسکے پاکستان کے دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف نے اپنی معصومیت کابھی ذکرکرتے ہوئے بتایاکہ وہ صدر آصف علی زرداری کی باتوں میں آگئے تھے لیکن اب انہوں نے اصولی موقف اپناتے ہوئے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں محمد نوازشریف نے پیپلزپارٹی سے علیحدگی کا فیصلہ بخوشی نہیں کیا کیونکہ اس وقت جو ملک کے حالات چل رہاہے اور جن قسم کے مسائل کا سامنا ہے موجودہ حکومت کیا اس کے بعد آنے والی حکومت کےلئے بھی چلنا آسان نہیں ہوگا اس لئے میاں نوازشریف کی مکمل کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے پیپلزپارٹی اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کرئے اوروہ ”شہید “نہ بن سکے تاکہ آئند ہ انتخاب میں پیپلزپارٹی کو بدترین شکست کاسامنا کرناپڑے لیکن اب میاں نوازشریف کی شاید یہ خواہش پوری نہ ہوسکے کیونکہ جمعیت علماءاسلام (ف) کی بروقت اپوزےشن میں واپسی اور دےگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے جلد سے جلد Writer-Logo-0موجودہ حکومت کی چھٹی کروانے اورالیکشن کی راہ ہموار کرنے کی تحریک شروع کرنے کی پالیسی کے باعث مسلم لےگ (ن) کو بھی اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کردیا مسلسل تین سال تک اقتدار اور اپوزیشن کے مزے لوٹنے والی مسلم لےگ (ن) اب بہت جلد عوامی رابطہ مہم بھی شروع کرئے گی جس کےلئے انہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے تعاون کی بھی ضرورت ہوگی تاہم کوئی بڑی سےاسی جماعت ججوں کی بحالی کےلئے چلائی گئی وکلاءتحریک کی طرح آئندہ دنوں  میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کو ہائی جیک کروانے کےلئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تعاون کو تیار نظر نہیں آرہی اس لئے مسلم لیگ (ن) نے فی الحال علاقائی سےاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے شروع کرنے کا فیصلہ کیاہے خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں موجود مختلف علاقائی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کا ٹارگٹ ہے اور جلد ہی مختلف سندھی اور بلوچی علاقائی جماعتوں سے رابطے بھی کئے جائیں جبکہ کچھ علاقائی جماعتو ں سے ابتدائی رابطے شروع بھی کردئیے گئے ہیں جن کے ساتھ ملکر مسلم لیگ (ن) نہ صرف حکومت مخالف تحریک کا آغاز کرئے گی بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی ان جماعتو ں کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی جاسکتی ہے ۔
پنجاب حکومت سے پیپلزپارٹی کی چھٹی کروانے کے باوجود فی الحال مسلم لیگ (ن)کی حکومت گرنے کاکوئی خطرہ نظر نہیں آرہااور بلوچستان کی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی موجود مسلم لےگ (ق) کے 47باغی (لوٹے)ارکان نے الگ پارلیمانی گروپ بناکر مسلم لےگ (ن) کی حکومت کو سہارا دے دیا اس سے یقینامسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت قائم رہے گی ۔
مرکزاور پنجاب میں ہونے والی ان تمام تبدیلیوں کے باوجود سوال ہے کہ کیا عوام کے مسائل حل ہوجائیں گے ؟بے روزگای اور مہنگائی کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا ؟کیالوگ خودکشیاں کرنا چھوڑ دیں گے ؟کیاعوام کو اسکی دہلیز پر انصاف ملے گا ؟کیا پاکستان امریکی چنگل سے چھٹکارا حاصل کرکے آزاد وخودمختار ریاست بن جائے گا ؟کیا پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات مل جائے گی ؟ کیا ملک سے دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ ہوجائے گا ؟یقینا اسکا جواب صرف اورصرف نہ میں ہوگا کیونکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)اور ان جیسی ملک میں موجود خاندانی وموروثی پارٹیاں ملک میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی ان کے تو اپنے ہی پیٹ نہیں بھرتے یہ عوام کےلئے کیاسوچیں گے ؟جن پارٹیوں کے قائدین اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی بجائے بیرون ممالک سرمایہ کاری کریں اور عوام کا لوٹا ہوا سرمایہ دوسرے ممالک کے بنکوں میں رکھیں ان سے آخر کیا امید رکھی جاسکتی ہے ؟پیپلزپارٹی اس ملک میں چار دفعہ جبکہ مسلم لیگ (ن) کو دو حکمرانی کا موقع ملا لےکن نہ عوامی مسائل حل ہوئے نہ بے روزگای اور مہنگائی کا خاتمہ ہوسکانہ عوام کو اسکی دہلیز پر انصاف ملانہ پاکستان امریکی چنگل سے چھٹکارا حاصل کرکے آزاد وخودمختار ریاست بن سکااورنہ ہی پاکستان کو آئی ایم ایف سے نجات مل سکی اس لئے عوام کو ان تبدیلیوں کے باوجود کسی خوش مہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہے کہ میاں نوازشریف نے اب حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرلیا اور مرکزمیں بھی پیپلزپارٹی کی چھٹی کرانے کے بعد میاں نوازشریف ملک میں نیا انقلاب برپا کردیں گے ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اس لئے اگر عوام ملک میں کوئی تبدیلی چاہتی ہے تو اسے جمہوریت اور آمریت کی بجائے کوئی تیسرا راستہ متعین کرناہوگا وہ یقینا اسلامی نظام (شریعت )کے نفاذ کا راستہ ہوسکتاہے کیونکہ اسلامی نظام کے نفاذ سے ہی حقیقی طور پر نہ صرف عوام کے مسائل حل ہونگے بلکہ عوام کو اسکے گھر کی دہلیز پر انصاف بھی ملے گا اس لئے ہمیں جمہوری اور آمرانہ(فوجی)نظام کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہے اور ڈیمانڈ کرنی چاہے  کہ لاالہ الااللہ کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺکا نظام ہی چلے گا شاید اللہ تعالی کو ہم پر رحم آجائے اور کوئی اپنا ایسا بند ہ بھیج دے جو اس دھرتی پر شریعت کو قائم کرئے یقینا ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں ۔