URDUSKY || NETWORK

جرمنی میں کارنیوال کا میلہ عروج پر

11
rotefunken-rosenmontag 

جرمنی کے دریائے رائن کی وادیوں میں بسنے والے شہروں میں روایتی کارنیوال کی گہما گہمی آج اپنے عروج کو چھو رہی ہے۔ محض کولون شہر میں دس لاکھ افراد اس میلے میں شریک ہوکر خوشیاں منائیں گے۔

کارنیوال کا آغاز  ویسے تو 11 نومبر  کو صبح 11 بج کر 11 منٹ پر ہوجاتا ہے تاہم اس طویل جشن میں Rosenmontag کہلانے والے آج کے دن کی حیثیت امتیازی ہے۔ آج کولون سمیت مائنز اور ڈسلڈورف میں بھی کارنیوال کے بڑے جلوس نکالے جائیں گے۔ اس دوران گزشتہ برسوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازوں کے مطابق محض کولون شہر میں 150 سے زائد فلوٹس تیار کیے گئے ہیں۔

ان فلوٹس پر روزمرہ کی زندگی سے وابستہ ہر شعبے، مثال کے طور پر سیاست، کھیل، پیشہ ورانہ امور وغیرہ سے متعلق مزاحیہ پہلووں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

کولون شہر میں خوشیاں منانے والے لاکھوں افراد پر 300 ٹن سے زائد کی چاکلیٹ، ٹافیاں اور پھول نچھاور کئے جائیں گے۔ کارنیوال کا یہ میلہ یورپ کے بعض دیگر ممالک میں بھی روایتی انداز سے منایا جاتا ہے تاہم جرمنی کے کارنیوال میں شرکت کرنے والوں کی تعداد نمایاں رہتی ہے۔

جرمنی کے اندر بھی بہت سے دیگر صوبوں میں کارنیوال نہیں منایا جاتا۔ البتہ کارنیوال منانے والے شہروں میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان شہروں کے تمام باسی کارنیوال کے موقع پر روز مرہ کی دیگر مصروفیات کو مکمل طور پر بھلا دیتے ہیں۔

انفرادی طور پر اس میلے میں شریک ہر شخص ایک دلچسپ روپ دھار کر شامل  ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فلوٹس بنانے والے پیشہ ور افراد بھی اس موقع پر اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ڈسلڈورف شہر کے Jacques Tilly بھی شامل ہیں جو بالخصوص سیاست دانوں سے متعلق طنزیہ فلوٹس بنانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ Rosenmontag سے قبل یہ اپنے فلوٹس میڈیا کو ہر گز نہیں دکھاتے تاکہ میلے میں شریک افراد اس کا خوب مزہ اٹھاسکیں۔

اپنے کام سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کے نظریات بہت حساس قسم کے ہوتے ہیں اور انہیں مزاح برداشت کرنے کی عادت نہیں ہوتی،’ مذہبی جذبات کو خاصا اہم خیال کیا جاتا ہے، مگر میں اس پر یقین نہیں کرتا، میرے خیال میں ہر قسم کے انسانی جذبات اہم ہیں تو مذہبی جذبات سے متعلق بھی مزاح کیا جاسکتا ہے، اگرچہ یہ بسا اوقات نقصان کا سبب بنتا ہے جیسا کہ ڈینش کارٹونسٹ کا معاملہ‘۔

اس بار ان کی نظریں حال ہی میں مستعفی ہوجانے والے وزیر دفاع کارل تھیوڈور سو گٹن برگ پر بھی ہیں، جو پی ایچ ڈی کے مقالے میں سرقہ کے الزامات کی پاداش میں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

 

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی