URDUSKY || NETWORK

ایصال ثواب اور اس کا شرعی جواز

13

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
آج کے گئے گزرے دو ر میں جبکہ نئے نئے فتنے ،مذہب،عقیدے سراٹھا رہے ہیں ۔کچھ لوگ سیدھے سادھے لوگوں کو اپنی چرب زبانی کی وجہ سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایصال ثواب کو تنقید کا شانہ بناتے ہیں۔قبل اس سے کہ میں قرآن وحدتِ کے حوالہ جات سے ایصال ثواب کا ثبوت عرض کروں ،ضروری ہے کہ عبادات کی اقسام تحریر کرتا جاؤں۔
عبادات تین قسم کی ہوتی ہیں:
(1)    بدنی عبادات: وہ تمام عبادات جو بدن سے تعلق رکھتی ہیں۔مثلاً تلاوت قرآن ،نماز ،روزہ ،تسبیح و تحلیل ،دعا استغفار وغیرہ یہ بدنی عبادات ہیں۔
(2)    مالی عبادات: زکواۃ ،صدقات ،خیرات ،کسی بیمار کی مالی امداد کرنا وغیرہ مالی عبادات ہیں۔
(3)    مرکب عبادات: حج،عمرہ،یا ایسی تمام عبادات جن میں رقم اور جسم دونوں کا تعلق ہو مرکب عبادات ہو ں گی۔
مسلمانوں کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ ان تمام عبادات کے صلہ میں خداوندقدوس ثواب عطا فرماتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کرنے والا اپنا ثواب کسی دوسرے شخص کو دے سکتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ رہا ہے کہ کسی متوفی کو نہ ثواب پہنچتا ہے اور نہ مردوں کو ثواب کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔آئیے! قرآن پاک اور حدےث رسول کریم ﷺ سے اس کا جواب دُکھے۔
ایصالثواب اور قرآن: قرآن پاک کی سورئہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ حضرت سےدنا ابراہےم  علےہ السلام کی دعا کو نقل فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
”رب اجعلنی مقےم الصلوٰة ومن ذرےتی ربنا وتقبل دعا ربنا اغفرلی ولوالدی وللمﺅمنےن ےوم ےقوم الحساب“
”اے میرے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو،اے ہمارے رب ہماری دعا سن لے،اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کوجس دن حساب قائم ہو گا۔“
ان آیات کوپڑھنے سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا عقیدہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کا ایمان تھا کہ زندوں کی دعا سے ایمان والوں کو نفع ہوتا ہے ،وگرنہ وہ کبھی اپنے ماں باپ اور مومنین کے لئے دُعا مغفرت نہ فرماتے۔بلکہ آپ نے تو اپنی آنے والی نسل کے لئے بھی دعا کر دی ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام انبیاء کرام کے باپ ہیں۔آ پ کی اولاد سے بہت انبیاء کرام پیدا ہوئے۔
قرآن پاک سے حضرت نوح علیہ السلام کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیے ! سورہ نوح کی آخری آیت مبارکہ ہے: ”رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بےتی مﺅمناً وللمﺅمنےن والمﺅمنات ولا تزد الظلمےن الا تبارًا“
”اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا مگر تباہی۔“
سیدنانوح علیہ السلام کا عقیدہ بھی آپ نے قرآن پاک سے ملاحظہ فرمایا کہ آپ نے اپنے لئے،اپنے والدین کے لئے ،ان لوگوں کے لئے جو ان کے گھر میں حالت ایمان کے ساتھ داخل ہوئے اور قیامت تک آنے والے تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مغفرت کے لئے دعا فرمائی۔اگر آپ کا عقیدہ یہ ہوتا کہ زندہ کی دُعا سے مرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا توآپ ہرگز دعانہ فرماتے۔صاحب تفسیر ابن کثیر آیت مذکور کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اس دعا میں زندہ اور مردہ سب کو شامل کیا گیا ہے۔
سورئہ بنی اسرائیل دیکھئے! اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو دعا ک%D