URDUSKY || NETWORK

فائبرآپٹک کے ذریعے ڈیٹا ٹرانسمیشن کا نیا ریکارڈ

13
 

جرمنی کے فرانھوفر ہائنرش ہیرٹز انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے فائبر آپٹکس کے ذریعے ڈیٹا ٹرانسمیشن کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ نیا ریکارڈ 10.2 ٹیرا بٹس فی سیکنڈ ہے۔

 

10.2 ٹیرا بٹس ڈیٹا کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اتنے ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے 240 ڈی وی ڈیز درکار ہوتی ہیں۔

فائبرآپٹک کے ذریعے تیز ترین ڈیٹا منتقلی کا سابق ریکارڈ بھی برلن میں موجود اسی جرمن تحقیقی ادارے کے ہی سائنسدانوں نے 2005ء میں قائم کیا تھا، جو 2.5 ٹیرا بٹس فی سیکنڈ تھا۔

برلن کے فرانھوفر ہائنرش ہیرٹز انسٹیٹیوٹ (HHI) اور ڈنمارک کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کی طرف سے اس کامیابی کا اعلان لاس اینجلس میں آپٹیکل فائبر کمیونیکیشن کانفرنس کے موقع پر جمعرات 10 مارچ  کو کیا گیا۔ مذکورہ رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر انہی دو اداروں کی تجربہ گاہوں میں کیا گیا۔ ان دونوں  لیبارٹری کے درمیان 29 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔

HHI کے ایک محقق کارسٹن شمٹ  لانگ ہارسٹ (Carsten Schmidt-Longhorst) نے ڈوئچے ویلے سے اس پیشرفت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ” ابھی تک دنیا بھر میں کوئی اور  فائبرآپٹک کے ذریعے ہائی پَلس ریپیٹیشن ریٹ high pulse repetition rate کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے اس رفتار سے ڈیٹا منتقل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرپایا۔”

کیا فائبرآپٹکس کے ذریعے اس سے تیز ڈیٹا ٹرانسمیشن بھی ممکن ہے؟

لانگ ہارسٹ کے مطابق HHI کے محققین 10.2 ٹیرا بٹس کی رفتار سے ڈیٹا کی منتقلی میں کامیابی پر وہ خود بھی حیران ہیں: ” جب ہم نے 2005ء میں 2.56 ٹیرا بٹس کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے میں کامیابی حاصل کی تو میرا خیال تھا کہ یہ فائبر آپٹک کے ذریعے شاید ممکنہ رفتار کی حد کے قریب ترین ہے۔

فرانھوفر ہائنرش ہیرٹز انسٹیٹیوٹ برلن میں ڈیٹا ٹرانسفر کا نیا ریکارڈ قائم کرنے والی لیبارٹری

اب جبکہ محض چھ سال بعد ہم نے سیریل  ڈیٹا ٹرانمیشن کے ذریعے چار گنا زیادہ رفتار سے ڈیٹا منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، میں اس بات کو  خارج از امکان  قرار نہیں دے سکتا کہ مستقبل میں اس سے بھی زیادہ رفتار سے ڈیٹا کی منتقلی ممکن ہے۔”

یہ حیران  کن رفتار  حاصل کرنے کے لیے سائنسدانوں نے ٹرانسمیشن  پَلس ریپیٹیشن ریٹ یعنی  ڈیٹا کو ساتھ لے جانے والی روشنی کے جھماکوں کی رفتار بڑھا دی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہر پَلس پر اِن کوڈ شدہ ڈیٹا کی مقدار بھی ایک بِٹ (Bit) سے بڑھا کر چار بِٹ کردی۔

کیا عام صارف اس رفتار سے مستفید ہوسکے گا؟

کیا انٹرنیٹ صارفین مسقبل قریب میں اس رفتار سے ڈیٹا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکیں گے،  اس سوال  کے جواب میں HHI کے محقق شمٹ  لانگ ہارسٹ کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک ابتدائی قدم ہے۔ کیونکہ یہ رفتار محض 29 کلومیٹر طویل نیٹ ورک میں حاصل کی گئی ہے، جبکہ عام صارفین ایک بہت طویل نیٹ ورک سے جُڑے ہوتے ہیں جس میں ہر 80 سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ڈیٹا ٹرانسفر کرنے والے سگنلز کی طاقت بڑھانی پڑتی ہے یعنی انہیں ایمپلیفائی کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران ڈیٹا کی منتقلی اور بینڈ وڈتھ  کے حوالے سے  دیگر  کئی تجربات بھی کیے گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک بہت اہم سال 2009ء میں Alcatel Lucent کی جانب سے کیا جانے والا تجربہ تھا۔  الکا ٹیل کے اعلان کے مطابق اس ادارے نے ایک کلومیٹر کے فاصلے تک 100 پیٹابٹس کی رفتار سے ڈیٹا ٹرانسفر کرنے میں کامیابی حاصل  کی تھی۔ یہ رفتار ایک لاکھ گیگا بٹس کے برابر بنتی ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے متعدد لیزر بیمز استعمال  کی گئیں۔

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی