URDUSKY || NETWORK

تپ دق کے خلاف نئی ویکسین کی آزمائش

10
تپ دق کے خلاف نئی ویکسین کی آزمائش 

جنوبی افریقہ میں ٹی بی کے مرض کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے والی جدید ویکیسن کی آزمائش کی جا رہی ہے۔ اس ویکسین کو جنوبی افریقہ میں ٹی بی کے خلاف امید کی کرن قرار دیا جا رہا ہے۔

 

ماہرین کے مطابق فی الحال  آزمائشی مرحلے سے گزرنے والی یہ ویکسین تپ دق کے خلاف موثر ثابت ہوئی تو ٹی بی کے خلاف 90 برس قبل بنائی جانے والی ویکسین کے بعد یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔

 تپ دق کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے جنوبی افریقہ دوسرے نمبر پر ہے

South African Tuberculosis Vaccine Initiative (SATVI) سے وابستہ مشل تامیرس کے مطابق اس وقت تپ دق کے خلاف بارہ مختلف ویکسینوں کی آزمائش کی جا رہی ہے۔ اس  میں سے جنوبی افریقہ میں بچوں کو لگائی جانے والی ویکسین سب سے جدید ہے۔ وہ کہتی ہیں: "یہ پہلی بار ہے جب یہ آزمائش کی جا رہی ہے کہ بچوں کو لگائی جانے والی یہ ویکسین اصل زندگی میں بھی ُاتنی ہی کارگر ہے ۔ اب ہمیں یہ دیکھانا ہے کہ کیا یہ ویکسین حقیقت میں انسانوں کو تپ دق سے حفاظت دیتی ہے”۔

SATVI کے مطابق اس نئی ویکسین کی آزمائش کے لیے جنوبی افریقہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ دنیا بھر میں دوسرے نمبر پرتپ دق کےسب سے زیادہ متاثرہ افراد کی اس ملک میں موجودگی کے باعث کیا گیا۔

جنوبی افریقہ میں تپ دق کے خلاف ویکسین تیار کرنے والی SATVI کے مطابق تپ دق کا مرض کمزور قوت مدافعت رکھنے والے انسانوں میں آسانی سے منتقل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس ملک میں HIV کی سطح دنیا کے بہت سے ممالک سے بہت زیادہ ہے، اس لیے یہاں کمزور قوت مدافعت رکھنے والوں کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ملک کی 48 ملین کی آبادی میں 5.7 ملین افراد HIV سے متاثر ہیں۔

تپ دق کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے والی یہ ویکسین ،جنوبی افریقہ کے لیے امید کی کرن ہے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی افریقہ کے مغربی کیپ خطے میں ہر ایک لاکھ میں سے نو سو افراد تپ دق کا شکار ہیں جبکہ صوبائی دارالحکومت کیپ ٹاؤن سے کوئی 75 میل دور ورسسٹر کے علاقے میں ہر سو میں سے ایک شخص ہر سال ٹی بی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ورسسٹر میں تپ دق کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے ٹیسٹ کی جانے والی یہ ویکسین برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں بنائی گئی ہے اور اسے ابھی MVA85A نام دیا گیا ہے۔ یہ ویکسین سن 1921 ء میں ٹی بی کے خلاف بنائی گئی موثر ترین ویکسین کے بعد بنائی جانے والی دوسری ویکسین ہے۔

اس وقت یہ ویکسین اپنی آزمائش کے پہلے مرحلے میں ہے جس میں نومولود بچوں کو اس کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ یہ آزمائش اپنے دوسرے مرحلے میں  اس وقت داخل ہو گی جب دو سال بعد اس ٹیکے کے اثرات سامنے آئیں گے اور ایسا سن 2012 کے وسط میں متوقع ہے۔ اگر اس کے مثبت نتائج سامنے آئے تو یہ ویکسین اپنی آزمائش کے تیسرے مرحلے میں داخل ہو جائے گی جس میں بیس ہزار افراد کو یہ ٹیکے لگائے جائیں گے۔ سائنسدانوں کے مطابق اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو تپ دق کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے والی یہ ویکسین سن 2016 سے 2020 کے درمیان استعمال کے لیے مارکیٹ میں دستیاب ہو جائے گی۔

 

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی