URDUSKY || NETWORK

بھارتی آبی جارحیت کو روکا اور کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیرشروع کی جائے

10

تحریر : محمد اسلم لودھی
امریکی سینٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیاگیا ہے کہ پانی کی قلت پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔کیونکہ بھارت درجنوں ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کو آبی جارحیت کا شکار کرسکتا ہے ۔حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ امریکی سینٹ کے اراکین بھارت کی آبی جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرات کی نشاندھی کررہے ہیں لیکن پاکستانی حکمران اقتدار کی باہمی رسہ کشی میں کچھ اس طرح مصروف ہیں کہ انہیں اس بات کی خبر نہیں کہ آنے والا وقت بطور خاص پانی کی قلت کے حوالے سے کس قدر تشویش ناک اور خطرناک صورت حال پیدا کرسکتا ہے ۔ پاکستانی تاریخ سیلابوں سے بھری پڑ ی ہے ہر مرتبہ نہ صرف سیلاب کی صورت میں اربوں ڈالر کا قیمتی پانی   محفوظ ذخیرہ گاہوں کے نہ ہونے کی بنا پر سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے بلکہ انسانی آبادیوں   املاک   جانوں و مال کو جو شدید نقصانات پہنچتے ہیں سالوں تک اس کا ازالہ نہیں ہوپاتا ۔۔ اس مرتبہ بھی پاکستان کو تباہ کن سیلاب کی وجہ سے دو کروڑ انسان متاثرین کے علاوہ 45 ارب ڈالر کا urdusky-writerمجموعی نقصان اٹھانا پڑا ہے اس کے باوجود حکمران نہ تو کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی بھارت کی آبی جارحیت روکنے کی جستجو کررہے ہیں ۔حالانکہ نوائے وقت کے ریفرنڈم میں 99 فیصد لوگوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دے کر یہ ثابت کردیا تھا کہ پاکستان اور کالا باغ ڈیم لازم ملزوم ہیں ماہرین کے مطابق اگر کالا باغ ڈیم جیسا منصوبہ پہلے تعمیر ہوچکا ہوتا تو 2010میں آنے والا سیلاب اس قدر تباہی نہ پھیلاتا لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ اے این پی اور سندھی قوم پرستوں نے نہ آج تک پاکستان کو دل سے قبول کیا ہے اور نہ ہی پاکستان کی بقا اور سالمیت کے حوالے سے ان سے کبھی خیر کی امید کی جاسکتی ہے ۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 63 سال ہوچکے ہیں لیکن اب تک اے این پی اور سندھی قوم پرست بھارت کے وظیفہ خوار ہیں ۔ سلیم سیف اللہ کی یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ پاکستان میں ایک نہیں 10 کالا باغ ڈیم بنائے جائیں تاکہ آبپاشی اور بجلی کے لیے وافر پانی میسر آسکے لیکن پیپلز پارٹی چاروں صوبوں میں نمائندگی کی وجہ سے ایک قومی جماعت ہے وہ یہ کہہ کر کالا باغ ڈیم کو پس پشت ڈال کر مجرمانہ چشم پوشی کا مظاہرہ کررہی ہے کہ کالا باغ ڈیم اتفاق رائے سے ہی بنایا جائے گا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ باقی تمام کام بھی اتفاق رائے سے ہی کئے جارہے ہیں ۔اگر خدانخواستہ اتفاق رائے کا یہ شوشہ 1947 میں چھوڑ دیا جاتا تو شاید آج پاکستان بھی معرض وجود میں نہ آتا لیکن قومی اہمیت کا کوئی منصوبہ اس لیے تعمیر نہ کیا جائے کہ اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو یہ نہ صرف پاکستا ن کے ساتھ سراسر زیادتی ہے بلکہ آنے والے سالوں پاکستان کو بجلی پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ صنعتی زرعی اور اقتصادی اعتبار سے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر نے کے مترادف ہے ۔ایک جانب کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے سے پاکستانی حکمرانوں کی مجرمانہ چشم پوشی تو دوسری جانب دریائے ستلج ,بیاس , راوی کو ہڑپ کرنے کے بعد اب دریائے چناب  جہلم  نیلم اور دریائے سندھ جیسے پاکستانی دریاﺅں پر بھی درجنوں ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کو بنجر بنانے کی ہر ممکن اور کامیاب کوشش کی جارہی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستان دو ٹوک الفاظ میں بھارت کو متنبہ کرتا کہ پاکستانی دریاﺅں کا ایک قطرہ بھی اگر بھارت نے روکا تو ہم ایٹم بم سے ڈیموں سمیت سارے بھارت کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے لیکن ہمارے حکمرانوں نے آنے والے خطرات اور تباہی کی جانب آنکھیں بند کرکے سندھ طاس معاہدے پر گفتگو کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ کچھ اس طرح شروع کررکھا ہے کہ104اجلاسوں اور بھارت کے 103 دوروں کے باوجود بھارت کی آبی جارحیت کو روکانہیں جاسکا بلکہ مذاکرات کرنے والے پاکستانی لوگ بھارت کے ہمنوا بن چکے ہیں اور وہ کھلے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کا پانی نہیں روک رہا اور نہ ہی پاکستانی دریاﺅں پر ڈیم بنا کر وہ پانی چوری کا مرتکب ہورہا ہے ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ اگر بھارت پانی نہیں روک رہا تو پاکستان میں بہنے والے دریاﺅں میں پانی کی بجائے ریت کیوں اڑ رہی ہے وہ پانی زمین نگل گئی ہے یا آسمان اچک کر لے گیا ۔ چناب اور جہلم کے بعد اب تو دریائے سندھ بھی پانی نہ ہونے کی بنا پر صحرا کی شکل اختیار کرچکاہے۔وقت گزرتا جارہا ہے 2001 میں شروع ہونے والے بھارتی ڈیم تیزی سے تکمیلی مراحل طے کرتے جارہے ہیں اور پاکستانی حکمران آنے والے شدید ترین قحط سالی اور پانی کی قلت کو دور کرنے کی جانب سے توجہ مبذول کرنے کی بجائے مجرمانہ غفلت کا شکارہوکر وقت گزارنے پر ہی اکتفا کررہے ہیں ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چایہیے اگر بھارت زیر تعمیر ڈیم مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو نہ ایٹم بم پاکستان کو اقتصادی  معاشی اور زرعی تباہی سے بچا سکے گا اور نہ ہی پاکستان ایک آزاد اور خود ملک کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا ۔کیونکہ پاکستان ہر اعتبارسے بھارت کا دست نگر اور ایک طفیلی ریاست بن کے رہ جائے گا ۔ اگر پاکستان کوبچانا ہے تو ایک نہیں دس کالا باغ ڈیم جیسے کثیر المقاصد منصوبے بنانا ہوں گے ۔ اتفاق رائے کی تکرار بند کرکے بلا تاخیر ہر اس منصوبے کی تعمیر شروع کرنا ہوگی بلکہ سندھ طاس منصوبے کے تحت مذاکرات کا سلسلہ بند کرکے دوٹو ک الفاظ میں بھارت کو متنبہ کرنا ہوگا کہ اگر اس پاکستانی دریاﺅں پر ڈیموں کی تعمیر نہ روکی تو ایٹمی جنگ شروع ہوسکتی ہے ۔