URDUSKY || NETWORK

بارش کی سائنس اور کیچڑ کی سیاست

10

بارش کی سائنس اور کیچڑ کی سیاست

آج سائنس کی تحقیق یہ بتلا رہی ہے کہ تمام الیکٹرانک آلا ت استعمال ہو تے ہوئے مثبت چا رج (+ve ion ) خا ر ج کر تے ہیں جو کہ صحت کہ لئے انتہائی نقصان دہ ہے جبکہ ہما رے شب و روز تقریباً مکمل طور پر الیکٹرانک آلا ت سے مزین ہیں

بارش شروع ہوتے ہی کچھ گھروں کو ریڈ زون قرار دے دیا جاتا ہے اور ان گھروں کے سربراہ ایمرجنسی کا اعلان کر دیتے ہیں مرد حضرات چھتوں کے اوپر مٹی سے بھرے تھال اور خواتین گھر کے برتن اٹھائے کمروں کے اندر اپنی پوزیشن سنبھال لیتیں ہیں پھر اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کپڑوں کے صندوق کے اوپر چھت ٹپک رہی ہے، مسہری پر پانی گر رہا ہے،بستر بھیگ رہے ہیں

تحریر:محمدالطاف گوہر

بارش بادلوں سے زمین کی سطح پر پانی کے قطروں کا علیحدہ علیحدہ گرنے کے عمل کو کہتے ہیں۔بارش کے برصغیر پاک و ہند میں بڑے نام ہیں۔ بارش، برکھا، میگھا، مینہ، پونم وغیرہ۔ بھارت کی ایک ریاست میگھالیہ کا یہ نام وہاں بہت زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے ہے, بنگلہ دیش کے ایک دریا میگھنا بھی مینہ یا میگھا سے بنا ہے۔ بارش زراعت اور پودوں کیلئے زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اوسطاً بارش کا ایک قطرہ ایک یا دو ملی میٹر قطر کا ہوتا ہے۔مون سون بارشوں اور موسم کے بہت بڑے نظام کا نام ہے۔ بارش برازیل، وسطی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں پودوں اور جانوروں کی بے تحاشا قسموں کی باعث ہے۔بارش ہماری رہتل میں خوشیوں گیتوں اور زندگی کا نام ہے۔ مون سون ہواؤں، بادلوں اور بارشوں کا ایک نظام ہے۔ یہ موسم گرما میں جنوبی ایشیاء ، جنوب مشرقی ایشیاء اور مشرقی ایشیاء میں بارشوں کا سبب بنتا ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں افریقہ کے مشرقی ساحلوں کے قریب خط استوا کے آس پاس بحر ہند کے اوپر گرمی کی وجہ سے بخارات بننے کا عمل ہوتا ہے یہ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور مشرق کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ جون کے پہلے ہفتے میں یہ سری لنکا اور جنوبی بھارت پہنچتے ہیں اور پھر مشرق کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ان کا کچھ حصہ بھارت کے اوپر برستا ہوا سلسلہ کوہ ہمالیہ سے آ ٹکراتا ہے۔ بادلوں کا کچھ حصہ شمال مغرب کی طرف پاکستان کا رخ کرتا ہے اور 15 جولائی کو مون سون کے بادل لاہور پہنچتے ہیں۔ عموما 15 جولائی کو پاکستان میں ساون کی پہلی تاریخ ہوتی ہے۔مون سون کی بارشیں اس علاقے میں اک نئی زندگی کا پیغام لاتی ہیں۔مون سون عربی زبان کے لفظ ‘موسم’ کی تبدیل شدہ شکل ہے۔
پانی (سنسکرت سے ماخوذ.)( انگریزی: Water)، آب (فارسی) یا ماء(عربی) ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہے ۔یہ تمام حیات کیلئے نہایت اہم ہے۔ پانی قدرت کا حسین تحفہ اور عطیہ ہے اور اسکا سفر کتنا دلچسپ ہے کہ ہلکا ہو تو آکاش کی طرف سفر کرتا ہوا ہواؤں کو آبیار (Pregnent) کرتا ہے، کبھی تو بادل بن کے آسمان پر چھا جاتا ہے اور پھر رحمت بن کے زمین پہ برستا ہے،اور کبھی آلودہ فضا کی غلاظتوں کو سمیٹتا ہے تو کبھی پھولوں پہ شبنم بن کے موتیوں کی طرح چمکتا ہے اور کبھی آبشار بن کے موسیقی کا سامان مہیا کرتا ہے اور کبھی برف بن کے پہاڑوں کی چوٹیوں پہ دمکتا ہے مگر زمین پہ ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہے اور اگر ِ اس کے بہاؤ کو پابند کر دیا جائے (حدوں میں، Boundries) تو ندی، نالوں اور دریاؤں کی طرح بہتا ہے اور کبھی چشمہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے پھر اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔ اگر حدوں میں رہے تو اس کے باعث طاقت پکڑتا ہے۔ اگر ایک طرف ہمارے لیے آبپاشی کا سامان مہیا کرتا ہے تو دوسری طرف اس سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے۔ اور اِسی طرح اس کا آدھا سفر ایک سمندر میں مدغم ہونے پہ مکمل ہو جاتا ہے جبکہ سورج کی تپش اسے مشتعل کرتی ہے اور پھر یہ بھاپ بن کر ہوا کے بازوں پہ بلند و بالا پہاڑوں کا سفر کرتا ہے اور پہاڑوں کی ننگی چوٹیوں کو سفید مخمل غلاف (برف) سے ڈھانپ دیتا ہے۔ مگر ایک بار پھر اچانک دھوپ کی تپش اِسے تھپکی دیتی ہے اور یہ پھر رخت سفر باندھ لیتا ہے اور ہواؤں کے دوش پہ سوار میدانوں کا رُخ کرتا ہے اور خطہ ء زمین پہ رحمت بن کے برستا ہے اور بنجر زمین اس کے دم سے سونا اُگلنے لگتی ہے۔
قدرت نے پانی کی فطرت میں بہنا لکھا ہے اگر اِسے بہنے کا موقع نہ ملے تو تالاب اور جوہڑ کی شکل میں رک جاتا ہے اور یہیں اِس میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے جو زندگی کو فنا کا درس دیتی ہے۔ اور اگر اِس کے بہاو ء میں حدیں نہ رہیں تو اپنی لامحدود طاقت و طغیانی کے باعث سیلاب کی شکل میں میدانوں میں دندناتا پھرتا ہے اور کسی سرکش حیوان کی طرح ایک بار پھر زندگی کو فنا کی طرف بہا لے جاتا ہے جبکہ حدوں میں بہتے ہوئے زندگی کو بقا دیتا ہے مگر حدوں کو توڑنے میں اور رُکنے میں فنا سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کا یہ سفر ازل سے اِس کی گتھی میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ اپنے سفر میں رواں دواں ہے (Automatic)۔ قدرت نے انسان کے اندر اور باہر پانی کا انتہائی اعلیٰ تناسب رکھا ہے جبکہ زمین تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی سے مرکب ہے اور یہ خشکی کا خطہ پانی کی سطح پر تیرتا پھرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی جگہ بدلتا ہے، اگر دُنیا کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اندازہ ہو گا جہاں پہلے کبھی سمندر تھے وہاں خشکی کا بسیرا ہے اور جہاں پہلے خشکی کا خطہ تھا وہ اب سمندر کا مسکن ہے۔
رش پیماء (اور باراں پیماء) یا مقیاس المطر (Rain Gauge)، ایک آلہ (Instrument) ہے جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کس قدر بارش ہوئی یہ لوہے کے سلنڈر اور شیشے کی ایک بوتل پر مشتمل ہوتا ہے۔ بوتل کے اوپر ایک قیف رکھی جاتی ہے۔ جس کا نچلا سرا بوتل کے اندر جاتا ہے اس سلنڈر کو کسی کھلے میدان میں سطح زمین سے تقریباً ایک فٹ اونچا رکھا جاتا ہے تاکہ بارش کے چھینٹے اس میں نہ پڑیں۔ یہ بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا پانی کسی صورت ضائع نہ ہو۔ بارش کا پانی قیف کے ذریعے بوتل میں جمع ہو جاتا ہے۔ یہ جمع شدہ پانی ایک درجہ دار سلنڈر میں ڈال کر ناپ لیا جاتا ہے۔ درجہ دار سلنڈر اور قیف کے منھ میں ایک تناسب ہوتا ہے اگر درجہ دار سلنڈر میں پانی دس انچ تک آئے تو کل بارش ایک انچ ہوگی۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر بارش کا پانی نہ بخارات بنے ، نہ زمین میں جذب ہو اور نہ کسی طرف بہ جائے بلکہ ایک جگہ کھڑا رہے تو اس کی گہرائی ایک انچ ہوگی۔ اس درجہ دار سلنڈر کے ذریعے 1/100 انچ تک بارش ناپی جا سکتی ہے اس قسم کے مقیاس المطر ہر تعلقہ یا تحصیل میں نصب ہوتے ہیں اور ان سے مقامی بارش کا اندازہ کیا جاتا ہے۔
آج سائنس کی تحقیق یہ بتلا رہی ہے کہ تمام ا الکٹرانک آلا ت استعمال ہو تے ہے اور مثبت چا رج (+ve ion ) خا ر ج کر تے ہیں جو کہ صحت کہ لئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔ہما رے شب و روز تقریباً مکمل طور پر الیکٹرانک آلا ت سے مزین ہیں ۔زند گی کا کوئی کا کوئی کا م ان کے بغیر مکمل ہو تا نظر نہیں آتا اور اس مصنوعی زند گی کے دھارے کو ہم سمجھنے کی کو شش نہیں کر تے ۔لہذا معلوم یہ ہو نا چاہیئے کہ انسانی جسم ان سے کیسے چھنکا را حا صل کر سکتا ہے ۔ تحقیقات ت سے ثا بت ہو چکا ہے کہ مثبت چارج (+ve ion)جو کہ انسان کی صحت کیلئے مضر ہے۔ اور نا رمل(Neutral) حالت میں آنے کیلئے انسان کو منفی چارج (-ve ion) کی ضرورت ہو تی ہے جو کہ آبشار، بارش اور دریا ،سمندر کے کنارے ہی میسر ہو سکتا ہے ۔کیونکہ جب پانی ہو اسے ٹکراتا ہے تو اس کیمیائی عمل کے نتیجہ میں منفی چارج (-ve ion) حاصل ہوتا ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید اور مثبت چارج کا سدباب بھی ہے ۔بارش کے باعث مفت کی حاصل ہونے والی صحت اور تازگی پہ قدرت کے اس انمول تحفے کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ گرمیوں میں باش میں نہا نے اور آم کھانے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
کیچڑ کی سیاست
اب بات کرتے ہیں کیچڑ کی سیاست کی ، بقول راشد علی منظر کچھ یوں ہے کہ قطرہ قطرہ سمندر کا اصل مظاہرہ دیکھنے کیلئے آپ کو مون سون کی بارشوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب بارش ہوتی ہے تو چھوٹی چھوٹی نالیوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور وہ ندی نالوں کی شکل اختیار کر لتیں ہیں ان کے ملاپ سے سڑکیں دریاؤں کی گزر گاہوں میں تبدیل ہو جاتیں ہیں اور ان دریاؤں کے ملنے سے شہر ایک بحر بیکراں کا روپ دھار لیتا ہے اور اس کے بعد پانی پانی ہر جگہ پانی کا منظر ہوتا ہے ویسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اتنا پانی ہونے کے باوجود ہمارے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر جھگڑا کیوں رہتا ہے؟
ہمارے ہاں ایک گھنٹہ بارش ہو جا ئے تو ایک ماہ تک اس کے آثار رہتے ہیں اگر آپ سیاح ہیں یا کافی عرصہ بعد بیرون ملک سے پاکستان تشریف لائے ہیں آپ کو ہر گھر کے سامنے ایک تالاب نظر آئے اور ہر تالاب میں درجن درجن بھر بچے کھیلتے نظر آئیں تو آپ بڑے فخر اور یقین کے ساتھ یہ بیان دے سکتے ہیں مگر ٹھہریے! کہیں ایسا نہ ہو کے آپ کی ذہانت حکمت اور فلسفہ دھرے کا دھرا رہ جائے یہ بیان دینے سے قبل اس بات کا اطمینان کر لیں کہیں واسا (WASA)تو اس شہر پر مہربان نہیں ہے۔ بارش سے قبل ہمارے گلی کوچوں میں مٹی ، دھول بن کر اڑتی ہے اور بارش کے بعد مٹی اور پانی کا آمیزہ جیسے بعض لوگ کیچڑ اور باز لوگ چکڑ کہتے ہیں اڑتا ہے بڑے بوڑھے اور خاص طور پر نمازی حضرات اس آمیزے سے اپنے کپڑوں کو بچانے کی ناکام کوشش کرکے اپنے آپ کو پرہیزگار اور معزز ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر بارش کے بعد باہر چہل قدمی کرنے کی صورت میں نقصان کی تمام تر ذمہ داری آپ پر عائد ہو گی یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے پاوں وفا نہ کریں اور آپ کینوس بننے کی بجائے پینٹ میں سے لتھڑے ہوئے برش کیطرح کیچڑ سے برآمد ہو اور اگر ابھی تک آپ کے ہاتھ پاوں سلامت ہو تو لوگوں سے مدد امید نہ رکھے اور لوگوں کو ہنسنے کا زیادہ موقع نہ دے اور سیدھا گھر کا رستہ لیں۔ بارش کے بعد کیچڑ کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے مثلاً احمد فراز کا یہ شعر بارش کے بعد کے حالات کی عکاسی کرتا ہے
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن سے رستے بنا لیے
دیہاتوں ،قصبوں اور کچی بستیوں میں یہ مناظر عام نظر آتے ہیں مگر لوگ اسی صورت میں رستہ بناتے ہیں اگر آپ دیوار تعمیر نہیں کرتے ا ور دیوار گرنے کی تمام ذمہ داری ہمسایوں پر عائد کی جاتی ہے جیسا کہ انڈیا یا افغانستان میں غبارہ بھی پھٹ جائے تو ذمہ داری پاکستان پر عائد کی جاتی ہے الزامات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں فلاں کے گھر سے پانی ہماری دیوار کی بنیادوں میں داخل ہوا فلاں نے گلی میں مٹی ڈلوائی ہوئی ہے جس کی وجہ پانی جمع ہو کر ہماری دیوار کی بنیادوں میں داخل ہوا اور دیوار زمیں بوس ہو گی ء حیرت کی بات ہے کہ اس معاملے میں معمار حضرات کے فن تعمیر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی جاتی اور یوں خواتین کے درمیان لڑاتی کی ابتدا مندرجہ بالا الزامات سے ہوتی ہے مگر فریقین پانی ،بنیادوں اور زمین بوس دیوار کو بھول کر ایک دوسرے کے شجرہ نصب تک پہنچ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی سوانح عمری کے اہم واقعات پر روشنی ڈالنا شروع کر دیتی ہیں دیکھتے ہی دیکھتے گلیوں چھتوں،ادھ کھلے دروازوں اور کھڑکیوں سے بچے اور خواتین نظر آرہی ہوتی ہیں جو حسین موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں گھروں کے بارے میں اپنی معلومات خاصہ میں اضافہ کر رہی ہوتی ہیں یہ لڑائیاں زیادہ تر زبانی کلامی ہوتی ہیں اور مخالفین فاصلے پر ہونے کے باعث ہاتھا پائی سے گریز کرتے ہیں ۔
بارش شروع ہوتے ہی کچھ گھروں کو ریڈ زون قرار دے دیا جاتا ہے اور ان گھروں کے سربراہ ایمرجنسی کا اعلان کر دیتے ہیں مرد حضرات چھتوں کے اوپر مٹی سے بھرے تھال اور خواتین گھر کے برتن اٹھائے کمروں کے اندر اپنی پوزیشن سنبھال لیتیں ہیں پھر اس طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کپڑوں کے صندوق کے اوپر چھت ٹپک رہی ہے، مسہری پر پانی گر رہا ہے،بستر بھیگ رہے ہیں،الغرض تھالوں کی مٹی اور گھر کے برتن ختم ہو جاتے ہیں مگر چھت کے سوراخ ختم نہیں ہوتے۔فرض کریں اگر بارش میں پانی کی بجا ئے معدنی تیل برستا تو امریکہ والے دنیا کے تمام بادلوں پر قبضہ کرنے پہ تلے ہوتے اور صورت حال کچھ اسطرح سے ہوتی کہ زمین کے ساتھ ساتھ آسمانوں میں بھی اک نئی جنگ جاری ہوتی جس میں دہشت گردوں کی روحوں کی تلاش کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک کے بادلوں پہ غلبہ کی کوشش کی جاتی ۔
یہاں اگر بات عاشقوں کی نہ کی جائے تو ظلم ہو گا کیونکہ بارش اور عاشقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بقول شاعر
کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
لذت وصل حاصل ہونے کے بعد کس نامراد کا دل چاہتا ہے کہ فراق کی تکلیف جھیلیں؟ البتہ اگر ناکامی پہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ جائے تو بارش کا منظر کچھ یوں ہوگا؛
اگر کبھی برسات کا مزہ چاہو، تو آو ان آنکھوں میں آ بیٹھو
وہ برسوں میں کبھی برسے ہیں، یہ برسوں سے برستی ہیں
ویسے پرانے وقتوں میں بقول شاعر تنہائی کا مزہ یادوں کے سہارے اور وہ بھی برسات کے ساتھ ؛
اک شام کی تنہائی ہے اور یہ برسات ہے
ایسے میں تیری یاد ہے اور یہ برسات ہے
مگر اب موبائل کا دور ہے صرف اک مس کال کے فاصلے پہ محبوب کھڑا ہے۔البتہ اگر بیلنس کی کمی ہے تو بارش کا مزا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر کوئی مس کال مل جائے تو کیچڑ مت اچھالیے گا کیونکہ اگر بات بگڑ گئی تو برسات کا مزہ بھی جاتا رہے گا اور تنہائی بھی کا ٹنے کو دوڑے گی!!!