اے میرے وطن تو سلامت رہے
تحریر :بابر نایاب(منچن آباد )
آج وقت کا پہےہ گھومتا ہوا پھر۳ ۲مارچ کو لے آیا ہے کیا کیا خواب دیکھے تھے ہمارے محسن ہیروز نے جہنوں نے اپنا تن من دھن اس وطن کو بنانے میں نچھاور کر دیا تھا ۔آہ کیا عظیم لوگ تھے وہ قائد جس کی پکار پر پوری قوم ایک پہاڑ کی طرح مضبوط ہو کر کھڑی ہو گئی تھی پھر کیا نہیں ہوا سر کٹوا دیے گھر لٹا دیا مگر اپنے قائد کا ساتھ دیتے رہے ۔مگر آج میرے اپنے ہی لوگ میرے وطن سے مخلص نہیں میرے اپنے ہی لوگ اس وطن کے بارے میں کہتے ہیں یہ کچھ دن تک زندہ ہے پھر اپنی آخری ہچکی لیتے ہوئے اس دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا ،ہاں میں مانتا ہوں آج میرا وطن طوفان حوادث کے تھپیڑوں میں ہچکولے کھا رہا ہے ہر طرف بے بسی طاری ہے قوم غم اور مایوسی کے بادلوں میں گھری ہوئی ہے مہنگائی نے جینا دو بھر کر دیا ہے میرا وطن غیروں کی جاگیر بن گیا ہے یہاںبے گناہ لوگ مر رہے ہیں یہاں انسانیت کا خون ہو رہاہے انصاف قدموں کی خاک بن چکا ہے عورت کے تقدس کو مجروح کر دیا گیا ہے ظلم اپنے جوبن پر ہے مگر پھر بھی میں اپنے وطن کو سلامت دیکھتا ہوں اُسے تا قیامت دیکھتا ہوں ،آج میرا وطن ہے تو میں ہوں میرا خون اور میرے خون کا ہر قطرہ میرے وطن کی امانت ہے اس مقدس وطن کی بدولت میں آزاد ہواﺅں میں سانس لے رہا ہے ۔ہاں میں مانتا ہوں مشکلات کے طوفان ہے مگر میری حالت کشمیر ،افغانستان ،عراق ،فلطین سے تو بہتر ہے نا ؟وہاں تو ظالم کافر ہیں مگر یہاں ظالم میرے اپنے ہیں مجھے اُمید ہے یہ میرے اپنے اگر مُجھے ماریں گئے تو میری لاش کو ٹھندی چھاﺅں میں تو رکھیں گئے مُجھے اُمید ہے ایک دن ان کا ضمیر ضرور جاگے گا مجھے اُمید ہے ایک دن ضرور یہاں امن ،سلامتی ،محبت کا پرچم لہرائے گا ،مُجھے اُمید ہے ایک دن پھر یہ میرے قائد اور اقبال کے خوابوں کی تعمیر بنے گا ۔میں کیوں مایوس ہو جاﺅں اپنے وطن سے آخر کیوں ؟آج بھی جب دنیا میں کہیں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو یہ میرا وطن ہی ہے جس میں بسنے والے لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کے لےے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔آخر آج کیوں میں اپنے بچوں اور اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کو بد گمانی اور مایوسی کی سوچ دے رہا ہوں آخر میں کیوں نیک شگون اُمید نہیں رکھ سکتا جب میں آزادی سے سانس لے رہا ہوں جب میں آزادی سے اپنے روز مرہ کے کام سر انجام دے رہاہوں اس وطن نے مجھے عزت دی ہے پیار دیا ہے وہ سب دیا ہے جو میں چاہتا تھا مگر پھر بھی آج اخبار پڑھ کر یا پھر خبریں دیکھ کر میں کہتا ہوں میرے ملک کا کچھ نہیں ہونے والا ۔کیوں نہیں ہونے والا کیا ستارے تاریکی میں نہیں چمکتے ؟ کیا ہر اندھیری رات کے بعد صبح کا خوبصورت اُجالے والا منظر نظر نہیں آتا ؟آج میری سوچ تاریک کیوں بنا دی گئی ہے آخر کیوں میں اپنے آپ اور اپنے وطن کے جذبات سے کھیل رہا ہوں اُس کی وجہ شاید یہی ہے آ ج میرا صبر ختم ہو گیا ہے آج میری برداشت ختم ہو گئی ہے آج میں صرف باتیں کرنا جانتا ہوں مگر کچھ کرنا نہیں جانتا آج صرف میں دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتا ہوں ارے اسی وطن کو بنانے کے لےے تو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی ہڈیا ں اینٹوں کی جگہ،گوشت گارے کی جگہ اور خون پانی کی طرح بہا یا تھا ؟مگر میں تو ماضی کو بھول چکا ہے میں تو سمجھتا ہوں وہ ایک خواب تھا مگر وہ خواب ہی کیا جس کی تعبیر نہ ہو۔میرا یقین ہے جب تک یہاں ایک بھی مسلمان کلمہ پڑھے والا ہے یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم رہے گا ۔یہ باتیں کوئی جذباتیت نہیں ہیں بلکہ اپنے وطن کی محبت کی ایک انمول مثال ہے میں جانتا ہوں یہی جذبات ہر ایک پاکستانی کے دل میں دھڑکتے ہیں مگر حالات نے کچھ لوگوں کو تاریک سوچنے پر مجبور کر دیا ہے مگر پھر بھی ہمیں سب کو مل کر اس وطن کے لےے اچھا ہی سوچنا چاہےے ہماری خوشیاں ہمارے غم اس وطن سے ہیں اور یہ وطن ہم سے ہے خدا را اسے آج پھر سے سینے سے لگا لوپھر سے اسے بچانے کے لےے اپنی آواز کو بلند رکھو اپنا حوصلہ قائد کی طرح اٹل رکھواور پھر دیکھنا کہ یہ وطن ہمیں ہماری آنکھوں میں ہمیشہ سلامت تا قیامت نظر آیا گا ۔انشا ئﷲ۔