URDUSKY || NETWORK

اقوام متحدہ کے خدشات،کمبوڈیا میں یتیم خانوں کے نظام کی جانچ پڑتال

11
اقوام متحدہ کے خدشات،کمبوڈیا میں یتیم خانوں کے نظام کی جانچ پڑتال 

UNICEF کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کمبوڈیا میں ‘رضاکار سیاحوں’ کی بدولت بچے خطرات کا شکار ہے۔ ان خدشات کے بعد کمبوڈیا کی حکومت نے ملک میں قائم یتیم خانوں کی جانچ پڑتال کا کام شروع کردیا ہے۔

 

کمبوڈیا کے ایک اخبار ’دی کمبوڈیا ڈیلی‘ کی رپورٹ کے مطابق ملک کی وزارت برائے سماجی فلاح وبہبود کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ یتیم خانوں میں رہنے والے بچوں کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے ان یتیم خانوں کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔

وزارتی ترجمان Lim El Djurado کے بیان کے مطابق،” ہم یہ معائنہ اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ وہاں بچوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جا رہا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، جو یتیم خانے اس سلسلے میں قصور وار پائے جائیں گے انہیں بند کر دیا جائے گا۔

کمبوڈیا میں یتیم بچوں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ ہے

قبل ازیں رواں ہفتے کے آغاز میںUNICEF  کا کہنا تھا کہ کمبوڈیا میں یتیم خانوں کی تعداد 269 تک پہنچ گئی ہے، جو سن 2005ء کی تعداد سے دُگنی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں یتیم بچوں کی تعداد بھی اسی عرصے کے دوران 5751 سے بڑھ کر 12 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کے مطابق ان یتیم خانوں میں تقریباﹰ تین چوتھائی ’یتیم بچوں‘ کے والدین میں سے کوئی ایک حیات ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخرکیوں اتنے زیادہ بچے، یتیم خانوں کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔

یونیسف کے ملکی صدر رچرڈ بریڈل نے جرمن پریس ایجنسی dpa سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کمبوڈیا میں صرف21 ایسے یتیم خانے ہیں جن کوحکومت کی جانب سے فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں۔ ملک کے باقی یتیم خانے، غیر ملکی امداد اور مذہب کی بنیاد پر چلائے جاتے ہیں۔

بریڈل کے مطابق،” ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے چندہ دینے والے بنیادی طور پر غیر ملکی افراد ہوتے ہیں”۔ وہ مزید کہتے ہیں،”بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے بہت سے ادارے چندہ دینے والوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کے لیے سیاحت کا سہارا لے رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ بچوں کو ممکنہ خطرات سے بھی دوچار کر رہے ہیں”۔

بریڈل کہتے ہیں کہ یہ نام نہاد رضاکارانہ سیاحت، جس میں غیر ملکی افراد اس دوران ان یتیم خانوں میں مدد کی غرض سے چند دن یا چند ہفتوں کے لیے آتے ہیں، ایک مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں،” یہ سیاح یا رضاکار چاہے کتنی بھی اچھی نیت کے ساتھ آتے ہیں اور ان یتیم خانوں کو بڑے عطیات دے جاتے ہیں، درحقیقت یہ ایک ایسے نظام کو عطیہ دے رہے ہوتے ہیں، جو بچوں کو اپنے والدین سے علیحدہ کر رہا ہوتا ہے”۔

بریڈل کے مطابق کیونکہ ان یتیم خانوں میں مقیم اکثر بچوں کے والدین میں سے کوئی ایک حیات ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس نظام کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کی جائے تاکہ حیات والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو خاندان سے علیحدہ کرکے ان یتیم خانوں کے حوالے کیے جانے کے فعل کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی