حکومت کو سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کرنے کی تجویز

پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) عامر عظیم باجوہ نے تجویز دی ہے کہ حکومت پالیسی بنا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو مقامی سطح پر بلاک کرے یا پی ٹی اے کی تکنیکی صلاحیت بڑھائی جائے۔

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں ہوا، جس میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے سوشل میڈیا پر مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد کے بارے میں بریفنگ دی۔

چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) عامر عظیم باجوہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد بہت بڑا مسئلہ ہے اور جعلی اکاؤنٹس چلائے جارہے ہیں جبکہ زیادہ تر ویب سائٹس بیرون ملک سے چل رہی ہیں۔

انہوں نے دوران اجلاس تجویز دی کہ حکومت یا تو پالیسی بنا کر مکمل طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو مقامی سطح پر بلاک کرے جس طرح چین اور متحدہ عرب امارات نے کیا ہے اور مقامی سطح پر متبادل سماجی روابط کی ویب سائٹس بنائے یا پھر پی ٹی اے کی تکنیکی صلاحیت بڑھائے۔

انہوں نے بتایا کہ 2010 سے لے کر اب تک 39 ہزار سے زائد لنکس کو بلاک کیا جاچکا ہے، لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اشتہار دیتے ہیں کہ توہین آمیز مواد جرم ہے۔

اجلاس کے دوران چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ بچوں کی پورنوگرافی (چائلڈ پورنوگرافی) میں پاکستان کے نمبر ون ہونے سے متعلق غلط فہمیاں ہیں، سال 2015 میں بین الاقوامی اخبار کی رپورٹ میں شائع کیا گیا کہ پاکستان اس میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ اس خبر کے اعداد و شمار غلط تھے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یقیناً چائلڈ پورنوگرافی ہے لیکن ملک اس میں پہلے نمبر پر نہیں آتا، ہم نے پورنوگرافی سے متعلق ساڑھے 8 لاکھ ویب سائٹس بلاک کی ہیں۔

چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ گستاخانہ مواد کے حوالے سے بھی انہیں عوام کی ساڑھے 8 ہزار شکایات موصول ہوئیں لیکن ہم نے 40 ہزار ویب سائٹس بلاک کیں۔

تاہم ساتھ ہی انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ پاکستان میں ڈارک ویب موجود ہے اور اسے کنٹرول کرنا آسان نہیں ہے، ڈارک ویب کے ذریعے پراکسی کی بلاک ویب سائٹ کھول دی جاتی ہیں۔

پی ٹی اے کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہمیں سوشل میڈیا کے قوانین تیار کرنے کے احکامات دیے ہیں، ہم اس پر کام کر رہے ہیں، جلد پیش کریں گے۔

کمیٹی کے اجلاس میں ایف آئی اے حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ سائبر کرائمز کے حوالے سے 3 سال میں 32 ہزار شکایات موصول ہوئیں تاہم ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے پاس صرف 15 تفتیش کرنے والے اہلکار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب سے 15 اور اسلام آباد سے 4 کیسز میں ملوث افراد کو گستاخانہ مواد پر گرفتار کیا گیا جبکہ 12 کیسز میں تفتیش جاری ہے۔

دوران اجلاس انہوں نے بتایا زیادہ تر کیسز میں فیس بک جواب نہیں دیتی جبکہ ٹوئٹر نے تو کسی ایک کیس کا بھی جواب نہیں دیا۔

اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹوئٹر اور فیس بک کا پاکستان میں کوئی نمائندہ نہیں؟ انہیں کہیں کہ یہاں اپنے نمائندے رکھیں۔

بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ گستاخانہ مواد کے حوالے سے قوانین تمام مذاہب کے حوالے سے ہونے چاہیے، سماجی روابط کی ویب سائٹس نے بہت پیسہ کمایا ہے، پاکستان گستاخانہ مواد ڈالنے پر ان ویب سائٹس کا ریونیو تو بلاک کر سکتا ہے۔

سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا نمائندہ ہونا چاہیے جبکہ پی ٹی اے کو مزید بااختیار بنانے کے قوانین بنائے جائیں، ہم پاس کروائیں گے۔

ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ سائبر کرائمز کے حوالے سے میوچل لیگل اسسٹنٹ ٹریٹی (ایم ایل اے ٹی) قانون پر دستخط کرنے چاہیے کیونکہ 12 انکوائریاں بھی چل رہی ہیں۔

Blocking Social Media WebsiteSocial Mediaسوشل میڈیاسوشل میڈیا ویب سائٹس
Comments (0)
Add Comment