پاکستان میں ہجڑوں کی قانونی جیت اور نعرہ "وصولی تک ڈیرے ڈال رکھیں گے"

پاکستان میں ہجڑوں کی قانونی جیت اور نعرہ "وصولی تک ڈیرے ڈال رکھیں گے”

البتہ سرکس میں "موت کا کنواں”ایک ایسی جگہ ہے جو خواجہ سراؤں کیلئے مخصوص کی گئی ہے جبکہ اس کنوے سے انکا سفر ” موت ” تک کی عمر سے بندھا ہوا ہوتا ہے کہ ناچتے ناچتے عمر تمام ہو جاتی ہے مگر اس کنوے سے "تیل” نہیں نکلتا بلکہ امیدوں کا "پسینہ” ضرور نکل جاتا ہے۔

تحریر: محمد الطاف گوہر
بنی نوع انسان دو واضع اصناف میں منقسم ہے مگر ایک اور بھی صنف ہے جو کہ بظاہر تو مکمل انسان ہے مگر نہ تو مکمل مرد ہے نہ ہی عورت ، اسے ہیجڑا ، کھسرا ، اور خواجہ سرا اور مغربی زبان میں لیڈی بوائے سے پکارا جاتا ہے۔ اس صنف کا مزاجی رجحان صنف نازک یعنی عورت کیطرف واضع طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ خواجہ سرا عموماً معصوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے کچھ

پاکستانی خواجہ سرا


خواجہ سرا تشدد پسند بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جبکہ ہندوستان میں ان کی تعداد ١٠ سے پندرہ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔
دس پندرہ سال پہلے تک پاکستان میں شہروں میں بھی خواجہ سرا کسی بچے کی پیدائش یا شادی بیاہ کے موقع پر اپنا ناچ گانا دکھانے چلے آتے تھے مگر اب تو گاؤں دیہات میں بھی خالی ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ البتہ سرکس میں "موت کا کنواں”ایک ایسی جگہ ہے جو خواجہ سراؤں کیلئے مخصوص کی گئی ہے جبکہ اس کنوے سے انکا سفر ” موت ” تک کی عمر سے بندھا ہوا ہوتا ہے کہ ناچتے ناچتے عمر تمام ہو جاتی ہے مگر اس کنوے سے "تیل” نہیں نکلتا بلکہ امیدوں کا "پسینہ” ضرور نکل جاتا ہے۔
کچھ عرصہ سے اس صنف کو پاکستان میں خصوصی اہمیت دی جارہی ہے ، جسکے باعث انہیں میڈیا میں موضوع بحث بھی بنایا جارہا ہے۔ کبھی تو تین میں نہ تیرہ میں، والی گوں مگوں کیفیت سے دوچار خواجہ سرا اپنی مطلق شناخت قائم نہ کر سکے اور کبھی "گے” جیسے القابات سے نوازا گیا حتکہ انہیں اپنے ہی گھر سے وراثت سے محروم رکھا گیا ، اور کبھی مردم شماری کے

پاکستانی خواجہ سراؤں کی خوشی کا ایک انداز


خانے شامل نہ کیا گیا ۔ اس معاشرے نے کبھی بھی عزت کا مقام دینا درکنار ہنسی مذاق اور تفریح کا باعث سمجھا۔ جسکے باعث یہ صنف ایک انفرادی شناخت رکھنے کے باوجود کمر پسی کا شکار رہی ۔ حالانکہ وہ افراد جو کہ میڈیکل "نامرد” ہیں انکو کبھی بھی کسی ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پٹرا۔
حال ہی میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سراؤں کے طرف سے دائر ایک درخواست کی سماعت کے دوران حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امتیازی سلوک کا شکار معاشرے کے اس طبقے کو باعزت ملازمتیں دینے کے لیے حکمت عملی وضع کرے۔ انھوں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ قرض نا دہندگان سے وصولی کے لیے حکومت پاکستان خصوصاً انکم ٹیکس کا محکمہ ء خواجہ سراؤں کی خدمات حاصل کرنے پر غور کرے جیسا کے ہمسایہ ملک بھارت کی بعض ریاستوں میں کیا گیا ہے ۔
ملک بھر میں خواجہ سراوٴں کی تنظیموں نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے نہ صرف ان کی برادری کے لیے روز گار کا مسئلہ حل ہو گا بلکہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی میں بھی آسانی ہوگی۔
بندیا رعنا کراچی میں خواجہ سراوٴں کی تنظیم” جیا“ کی سربراہ ہیں، انہوں نے اس فیصلے پر اپنے

تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو لوگ بھاری قرضے لے کر خاموش بیٹھے ہیں ہم جب ان کے دروازوں پر جا کر بیٹھیں گے تو شاید وہ یہ نوبت ہی نہ آنے دیں اور خود ہی قرضہ واپس اور اپنے واجبات ادا کر دیں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سراوٴں کو معاشرے کا متحرک رکن بنانے کے لیے یہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اچھا قدم ہے جو قرض نا دہندگان کے لیے یقیناً برا ثابت ہو گا کیونکہ وہ اس وقت تک ڈیرا ڈالے رکھیں گے جب تک رقم واپس نہیں مل جاتی ۔ کیوں کہ نہ تو ہمارے کوئی بچے ہیں اور نہ ہمیں گھر واپس جانے کی جلدی ہوگی۔بندیا رعنا کا کہنا ہے کہ دوسرے شعبوں میں بھی خواجہ سراؤں کو اگر روزگار کے مواقع دیے جائیں تو حکومت کو اس کا فائدہ ہوگا۔
بندیا رعنا کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم اس فیصلے کی منتظر تھی کیوں کہ پاکستان میں چھوٹا قرضہ لینے والے افراد کو تو خود کشی کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے لیکن بڑا قرضہ لینے والوں کے لیے کھلے عام معافی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی گھروں میں موجودگی کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو عموماً گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن وہ خواجہ سرا ہیں اور انہیں ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہو گا ۔
دوسری طرف سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حشمت حبیب نے کہا کہ ہیجڑوں کو قرضوں یا ٹیکس کی وصولی کے عمل میں شامل کرنے کی تجویز پاکستان کے ثقافتی نظام سے میل نہیں کھاتی لہذا اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت میں اگرچہ 20سال پہلے اس قسم کا اقدام اٹھایا گیا تھا لیکن وہاں بھی عوام کی اکثریت نے اس پر ناخوش کا ہی اظہار کیا تھا۔
ضروری یہ ہے کہ ہیجڑوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قوانین کا مئوثر نفاذ ہو اور انھیں دیگر تہذیب یافتہ معاشروں کی طرح پاکستان میں بھی ایک باعزت مقام اور وراثت میں حق دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں ان معاشرتی رویوں میں تبدیلی درکار ہے جو ان کی تضحیک کا سبب ہیں اور ان کی رائے میں اس کے بعد ہی ہیجڑوں کو معاشرے کا مفید شہری بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں ہیجڑوں کو علیٰحدہ جنس کے طور پر شناخت اختیار کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ ماہرین قانون نے اس فیصلے کو ہیجڑوں کے حقوق کو یقینی بنانے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بدھ کو ایک فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی کہ ہیجڑوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کئے جائیں، جن پر ان کی جنسی شناخت تحریر ہو۔ ساتھ ہی ہیجڑوں کو ہراساں نہ کئے جانے کی یقین دہانی کرنے کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے۔
عدالت میں ہیجڑوں کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل محمد اسلم خاکی کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن اتھارٹی کو قومی شناختی کارڈ میں خواجہ سراؤں کی جنس ظاہر کرنے کے لئے ایک علیٰحدہ خانہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہوں نے ہیجڑوں کے حوالے سے بتایا کہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت پر عمل سے انہیں اُن کے حقوق حاصل ہوں گے۔ خاکی نے بتایا کہ عدالت نے ہیجڑوں کی میراث کے حقوق کے تحفظ کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
دوسری جانب ہیجڑوں کی ایک ایسوسی ایشن نے بھی چیف جسٹس افتخار چوہدری کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے صدر الماس بوبی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے، جب ہیجڑوں کی فلاح کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔الماس بوبی کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی کو شناخت اور احترام دینے کی جانب یہ ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی شناخت انسان کے طور پر ہو سکے گی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراؤں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی بیشتر تعداد پسماندہ علاقوں میں آباد ہے جبکہ انہیں گزر بسر کے لئے شادیوں اور میلوں میں رقص اور بھیک کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بعض کو تو جسم فروشی میں ملوث بھی پایا گیا ہے۔
ان پر تعلیم و صحت کی سہولتوں کے دروازے اکثر بند کر دئے جاتے ہیں۔ جائیداد خریدنے یا مکان کرایے پر حاصل کرنے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کے اپنے خاندان بھی انہیں میراث کے حقدار نہیں سمجھتے۔معاشرہ انہیں خدا کی ٹھکرائی ہوئی مخلوق گردانتا ہے۔ یہ بھی سجھا جاتا ہے کہ ان کی بددعا اثر رکھتی ہے، اس لئے لوگ ان سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں۔ پاکستان میں ہیجڑوں کی آبادی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ تاہم ان کی کمیونٹی کے ذرائع کے مطابق ان کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہے۔ البتہ سپریم کورٹ رواں برس میں حکومت کو ہیجڑوں کی مردم شماری کا حکم جاری کر چکی ہے۔امید ہے کہ اس سب کے بعد خواجہ سرا پاکستان میں اپنی انفرادی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے ایک با عزت مقام پا لیں گے۔

ArticlesBlogCulturePeopleآجتحقیقات | Researchخواجہ سراکالمکھسرایجڑا
Comments (0)
Add Comment