تبصرہ کتاب " لذتِ آشنائی"

تبصرہ کتاب ” لذتِ آشنائی”

تبصرہ: بابرسلیم نایاب
نوجوان نسل میں تیزی سے مقبولیت اختیار کرتے ہوئے اور انٹر نیٹ کی دنیا کے جانے مانے مصنف محمد الطاف گوہر نے اپنی شہرئہ آفاق تحاریر کاگلدستہ اپنی تصنیف "لذتِ آشنائی” کے نام سے پیش کیا ہے جس کی مہک افکار تازہ کو سمیٹے ہوئے انسانیت کے لئے ” محبت ” کا ایک پیغام ہے ۔ اگر ایک طرف زیر نظر کتاب "لذتِ آشنا ئی” علم و عرفان کا ٹاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے تو دوسری طرف دل کے تار چھیڑ دینے والی یہ کتاب اپنے اندرمحبت،انسانی اقدار ، سائنس، فلسفہ ، نفسیات ،روحانیت ،انسانی خواہشات کے عروج و زوال کو سمیٹے ہوئے ہے ۔ زندگی کی حقیقتوں سے لبریز، انسانی اقدار اور رویوں کو جدت کی ڈگر پررہتے ہوئے ،الفاظ کو جس انداز سے تحریر کی لڑیوں میں پرویا ہے وہ یقینا قابل تحسین ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف انسانی ذہن کے دریچے روشن کرنے میں پیش پیش ہے بلکہ بالکل ایک نئی دنیا کی سیاحت کروا دیتا ہے ، جبکہ یہ کتاب افکار تازہ اور جدت کا سنگم ہے اور ایک متحرک مگر زندگی سے بھرپور تحاریرپر مبنی کاوش ہر شعبہ زندگی کے افراد کو جمود سے ایک دعوتِ عمل اور نئی راہ منزل دیتی ہے۔ نئی دنیاوں کودریافت کرنے پر گامزن ہے اکیسویں صدی کے جدت کے مصنف محمد الطاف گوہر کے مضامین گاہے بگاہے معروف اخبار اور اردو ویب سائٹس کی زینت بنتے رہتے ہیں ، جبکہ مراقبہ کے موضوع پر ان کی لاثانی تحاریر پوری دنیا میں ایک مکمل ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں جو کہ آج کے دکھی انسان کو طمانیت قلب اور مادی مسائل کا بوجھ کم کرنے میں پیش پیش ہے۔
آپنی کتاب کے پیش لفظ میں فرماتے ہیں ؛ ” اکیسویں صدی میں افراد جوکہ پہلے زندگی کو دورخی سطح 2D یعنی اپنی ذاتی زندگی اور اپنی تہذیب ، پر گامزن دیکھتے اوراسکے پیچھے چلتے تھے اب انہیں سہہ رخی دنیا3D ،اس وسیع و عریض کرئہ عرض پر پھیلی ہوئی دوسری تہذیبوں سے بھی پالا پڑ رہا ہے جہاں اگر ایک طرف ان تہذیبوں کا ادغام ہے تودوسری طرف معلومات کا سیلاب انکے دروازے پر دستک دے رہا ہے” ، اور آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ؛ ” بلا شبہ الفاظ کے کھلاڑی وہ مشاق نشانہ باز ہوتے ہیں کہ انکا کوئی تیر بھی خطا نہیں جاتا ، اگر اسی کھیل ہی کھیل میں وہ ستم نہ ڈھائیں تو انسانیت کے شانے بلند کرتے نظر آتے ہیں اور اگر فاﺅل کھیلیں گے تو انسانیت کی جڑوں میں زہر گھول دیتے ہیں جسکے ثمرات آنے والی نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں”
مختلف موضوعات پر پیش کردہ مضامین میں سے چند ایک اقتباس، جیسا کہ اپنی کتاب کے ایک باب "ایک بار دیکھا ہے ، بار بار دیکھنے کی خواہش ہے” کے موضوع میں آپ نے لکھا ہے ؛” انسانوں میں بسنے والی محبت نے اپنی ناقدری کے باعث زمین سے دور اپنا ایک علیحدہ گلستان بسا رکھا ہے، جہاں پیار کے پنچھی اپنی اپنی میٹھی دھن میں نغمے گاتے ہیں، جہاں الفت کی گھنی چھاوں میں وصل اپنی شامیں بھول جاتی ہے، جہاں خوشیوں کی تتلیاں مروت کی پھولوں پر چہکتی ہیں ، جہاں نفرت کے کانٹوں کی کوئی جگہ نہیں،ان وادیوں کی ملکہ پاکیزگی کے جڑے موتیوں کا تاج سجائے جب لذتِ لاثانی کے تخت پر براجمان ہوتی ہے تو کبھی آفتاب اورکبھی مہتاب اپنی تمام رعنائیوں کو اسکے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔“ اسی طرح اپنے ایک مضمون ” روشن چراغ ” میں لکھتے ہیں ؛ ” ازل سے ادیانِ عالم اِس کا درس دیتے آئے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے روابط کس طرح رکھنا ہے اور انکے لئے کس طرح فائدہ مند ہونا ہے اور لوگوں میں رہتے ہوئے زندگی کس طرح سے گزارنی ہے، وگرنہ اگر انسان نے اکیلئے جنگل میں رہنا ہوتا پھر اس سب کی کیا ضرورت تھی؟ ” رشتوں کے تقدس پر ایک مضمون میں آپ نے لکھا ہے ؛ ” جس طرح بہتا پانی شفاف اور تازہ رہتا ہے اسی طرح رشتے بھی روانگی مانگتے ہیں، اور تسلسل کا پانی انہیں شاداب رکھتا ہے۔ عمر ، رنگ و نسل سے بالا تر ہر رشتہ ایک انمول موتی ہے جو رویوں کے مالا میں پرو کر الفت کے کھونٹی پر لٹکا یا جاتا ہے اور کبھی کبھی لمحہ تنہائی میں گذشتہ ایام کو جپا جاتا ہے تو احساس کا آنگن یادوں کی مہک سے لبریز ہو جاتا ہے” ۔یہ کتاب انسانی قدروںکو بلند کرنے اورجذبات میں مثبت انقلاب برپا کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے، لذتِ آشنائی کا مطالعہ اگر ایک طرف علم وآگاہی کے بحربیکراں میں غوطہ زن ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے تودوسری طرف زندگی کے و ہ پل آشکارکرتا ہے جہاں زندگی اپنی لازوال جلوتوں کو نچھاورکرتی نظر آرہی ہو۔ اس کتاب کی ضخامت 208 صفحات ہے جبکہ قیمت 240 روپے ، اسے دعا پبلیکیشنز 25 لوئر مال (042-37233585) ، لاہور،نے شائع کیا ہے ۔


زمرے کے بغیر
Comments (0)
Add Comment