انٹرنیٹ جاسوسی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے: اسانج

 

دنیا میں ہلچل پیدا کردینے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی جولیان اسانج نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ نے موجودہ دور کی دریافت انٹرنیٹ سے زیادہ فعال جاسوسی کی مشین ابھی تک نہیں دیکھی ہے۔

 

انٹرنیٹ کے فوائد اپنی جگہ پر لیکن مختلف ملکوں کے ویب کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد ہیکرز نے اہم بین الاقوامی ویب سائٹس کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے۔ اس کام میں کئی لوگ شوقیہ اور کچھ باقاعدہ اس عمل سے مالی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ ہیکرز اہم اور حساس ویب سائٹ کے لیے بنائی گئی حفاظتی دیوار کو توڑنا اپنے لیے ایک چیلنج خیال کرتے ہیں۔

اس انٹرنیٹ مہم جوئی کے تناظر میں ہزاروں خفیہ دستاویزات کو وکی لیکس ویب سائٹ کے ذریعے شا ئع کرنے والے جولیان اسانج نے اقوام عالم کو متنبہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو عصر حاضر کی انتہائی مؤثر جاسوسی کرنے والے مشین سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ عالم میں کبھی بھی ایسی مشین دریافت نہیں کی گئی۔ اسانج کا یہ بھی خیال ہے کہ انٹرنیٹ اقوام میں آزادئ رائے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔

ان خیالات کا اظہار جولیان اسانج نے کیمبرج یونیورسٹی کے طلبہ کے سامنے کیا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ جولیان بھی نوعمری کے دور میں انٹرنیٹ کے ایک ہیکر تھے۔ اسانج کے مطابق انٹرنیٹ کے توسط سے قائم سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس میں شامل افراد  اور ان کے خیالات پر حکومتی کنٹرول بھی انٹرنیٹ سے منسلک ہے۔ اسانج کے نزدیک ایسی حکومتی تاک جھانک آزادئ رائے کو دبانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے وکی لیکس ویب سائٹ کے بانی نے فیس بک کو بطور ریفرنس پیش کیا۔ ان کے نزدیک مصر میں عوامی تحریک کو حقیقت میں فیس بک انقلاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیس بک کے ذریعے سابقہ مصری حکومت نے مخالفین کو گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ریاستی جبر کا نشانہ بھی بنایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹرنیٹ کے سہارے حکومت اپنے مخالفین کے خلاف کس حد تک جا سکتی ہے۔

اسانج کے خیال میں انٹرنیٹ کی افادیت مسلّم ہے لیکن ٹیکنالوجی کی ترقی سے آمریت نواز حکومتیں اپنے مخالفین کو دبانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ اس موقع پر جولیان اسانج نے تیونس میں رونما ہونے والے عوامی انقلاب کی بھی مثال دی۔ ان کے خیال میں امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے افشاء ہونے کے عمل نے عالمی سیاسی منظر میں ہلچل پیدا کرتے ہوئے اسے ایک نئی جہت سے نوازا ہے۔

اسی میٹنگ میں انہوں نے امریکہ میں مقید فوجی بریڈلی میننگ سے اظہار ہمدردی بھی کی۔ میننگ کو خفیہ پیغامات کے افشاء کرنے کے شبہ میں حراست میں لیا گیا ہے۔

 

بشکریہ ڈی ڈبلیو دی

زمرے کے بغیر
Comments (0)
Add Comment